عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ گلہری کتنی ناداں ہے

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ تجھے کیوں لگا ہے کہ تشنگی کو مٹا رہی ہیں یہ بارشیں

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے

غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے سجیلے ماتھے کے سرخ ٹیکے سے اور ہونٹوں کی لالیوں سے پُرانے کیمپس کے پیڑ ہاتھوں کا لمس پانے کے منتظر ہیں وہ شخص چھُو چھُو کے سبز کرتا تھا پھول جھڑتے تھے ڈالیوں سے یہ رسمِ تازہ گلاب پاشی بھی چیر دیتی ہے گُل کا سینہ کہ پھول مٹی میں رول دیتے ہیں لوگ چُن چُن کے تھالیوں سے مجاورانِ مزارِ اُلفت سے لوگ پوچھیں گے دفن کیا ہے ؟ تو پیر و مرشد! میں کیا بتاؤں گا،…

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ کبھی لَو بڑھی تری یاد سے ،کبھی خط پکڑ کے جلا دیا

کبھی لَو بڑھی تری یاد سے ،کبھی خط پکڑ کے جلا دیا کبھی شِدّتِ غمِ ہجر سے ترا نام لکھ کے مٹا دیا مرے مُرشدی ترے بعد دل کسی اور کا نہیں ہو سکا کہ پُجاریوں میں یہ رِیت ہے جو چڑھا دیا سو چڑھا دیا مری خاک کو نہیں چاہ اب، رہی دوسرے کسی چاک کی مرے کوزہ گر ترے ہاتھ نے جو بنا دیا سو بنا دیا دلِ سوختہ کا وہ داغ ہو یا وہ منتوں کا چراغ ہو ترے نام پر ترے بام پر جو جلا دیا…

Read More