عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ کبھی لَو بڑھی تری یاد سے ،کبھی خط پکڑ کے جلا دیا

کبھی لَو بڑھی تری یاد سے ،کبھی خط پکڑ کے جلا دیا
کبھی شِدّتِ غمِ ہجر سے ترا نام لکھ کے مٹا دیا

مرے مُرشدی ترے بعد دل کسی اور کا نہیں ہو سکا
کہ پُجاریوں میں یہ رِیت ہے جو چڑھا دیا سو چڑھا دیا

مری خاک کو نہیں چاہ اب، رہی دوسرے کسی چاک کی
مرے کوزہ گر ترے ہاتھ نے جو بنا دیا سو بنا دیا

دلِ سوختہ کا وہ داغ ہو یا وہ منتوں کا چراغ ہو
ترے نام پر ترے بام پر جو جلا دیا سو جلا دیا

یہاں تشنگی رہے جب تلک نہیں پھیرتے ہیں نگاہ کو
یہاں ساقیوں میں رواج ہے جو بڑھا دیا سو بڑھا دیا

نہ وہ حدتوں بھرا ہاتھ ہے، نہ وہ شعلگی بھرا ساتھ ہے
ابھی مختصر یہی بات ہے جو بُجھا دیا سو بُجھا دیا

Related posts

Leave a Comment