تاثیر نقوی ۔۔۔ جھیل جیسی مجھے لگیں آنکھیں

جھیل جیسی مجھے لگیں آنکھیں
حال مجھ سے مِرا کہیں آنکھیں

اُس کی خوشبو سمٹنے لگتی ہے
مُجھ سے جب گفتگو کریں آنکھیں

یہ مِری روح کی امانت ہیں
دُکھ جہاں بھر کے کیوں سہیں آنکھیں

ایک دوجے سے کیسے ملنا ہے
مُجھ سے چھُپ چھُپ کے یہ کہیں آنکھیں

دِل کی حالت عجیب ہوتی ہے
آگ کی طرح جب جلیں آنکھیں

حالِ دِل کی اُنھیں خبر ہو جائے
وُہ اگر غور سے پڑھیں آنکھیں

کاش یہ معجزہ بھی ہو جائے
میری جانب تِری بڑھیں آنکھیں

تاک میں ہوں میں ایسے منظر کی
جُھک کے اِک بار وہ اُٹھیں آنکھیں

روح تک روشنی اُتر جائے
گر سہارا مِرا بنیں آنکھیں

میرا دِل باغ باغ ہو جائے
میرے رستے میں جب بچھیں آنکھیں

رونے لگتا ہے میرا دِل تاثیر
میری حالت پہ جب ہنسیں آنکھیں

Related posts

Leave a Comment