اکرم کنجاہی ۔۔۔ صائمہ نفیس

صائمہ نفیس

صائمہ نفیس اِن دنوں کراچی ریڈیو اسٹیشن سے’’ادب سرائے‘‘ کے نام سے ایک ادبی پروگرام کر رہی ہیں۔معروف ادبی جریدے ’’دنیائے ادب‘‘ کی نائب مدیرہ ہیں۔آرٹس کونسل کراچی کی بہت فعال رکن ہیں اور وہاں منعقد ہونے والی تقریبات میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’رودالی‘‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ کتاب میں کُل 16 افسانے شامل تھے۔افسانہ نگار کا اسلوبِ بیاں شائستہ، رواں، سادہ اور عام فہم تھا۔کہیں کوئی علامت اور تجرید نہیں تھی۔عدم ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔افسانوں کی بنیاد کہانی پن پر رکھی گئی تھی۔کردار نگاری اور مکالمہ نگاری قابلِ تعریف تھی۔اکثر افسانوں کا اختتامیہ بھی بھر پور تاثر لیے ہوئے تھا۔ہم ’’تانیثیت‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تو یہ ایک اہم کتاب کہی جا سکتی ہے۔اِس افسانوی مجموعے پر ملا جُلا ردِ عمل آیا۔بہت تعریف بھی کی گئی۔تمام ہی تخلیقات مقصدی تھیں کہ ہمارے سماج اور معاشرت میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ظلم وزیادتی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ فرسودات اور ظالمانہ رسوم مثلاً کارو کاری اور ونی پر مصنفہ نے جرأت مندانہ انداز سے قلم اٹھایا تھا اور جو احباب یہ کہتے ہیں کہ ادب میں عورتوں کا الگ کمپارٹمنٹ نہیں ہوتا در اصل مصنفہ نے انہیں بھی آئینہ دکھایا تھا کہ یہ کام کوئی عورت ہی کر سکتی ہے اور اُس نے کیا۔ تمام افسانوں میں عورت کو مظلوم و مقہور دکھایا گیا۔افسانے اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے جاہلانہ ماحول کے پس منظر میں تحریر کیے گئے۔اُس وقت کے گورنر سندھ عشرت العباد نے انہیں ۵۰؍ ہزار کی انعامی رقم سے بھی نوازا۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی تھا،کچھ احباب نے افسانوں کو اِس بنیاد پر یک رُخا قرار دیا کہ اُن میں مرد کی شخصیت کا ایک ہی رُخ پیش کیا گیا تھا۔ اگرچہ افسانے تانیثیت، جرأتِ اظہار، سفّاک حقیقت پسندی اور مقصدیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں مگر یوں لگا کہ مصنفہ نے گل دستے میں سارے سرخ رنگ کے گلاب ہی سجا دئیے ہیں۔ کراچی کی ایک دو ادبی تقریبات میں جب مجھے اُن کی تخلیقات پر بات کرنا پڑی تو میں نے بھی تخلیقات کے اِس پہلو کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اب جب کہ اُن کادوسرا مجموعہ ’’پچھلے پہر کی خاموشی ’’بھی آنے والا ہے میری دُعا اور خواہش ہے کہ وہ اِس پہلو پر بھی نظر رکھیں۔خواتین کے مسائل پر اُن کی گہری نظر ہے، جو بھی لکھا ہے وہ ہمارے معاشرے میں واقعی ہوتا ہے اور اُن کے مشاہدات کی داد دینا پڑے گی۔
’’رودالی‘‘ اِس مجموعے کا ایک اہم افسانہ ہے۔جس میں ہمارے معاشرے کے اِس پہلوپر بات کی گئی ہے کہ جو معاملہ مرد کے لیے محض وقت گزاری سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا وہی ایک عورت کے لیے زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔جب جھوٹے کانچ کے وعدے اور سپنے ٹوٹتے ہیں تو عورت کی روح تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔چودھریوں کا لڑکا شہر سے پڑھ کر واپس گاؤں آتا ہے تو اپنے گھر کی ملازمہ ماسی خیراں کی خوب رو بیٹی سو ہنی کو خوب صورت سپنے دکھاتا ہے، یہ اُس کے لیے محض وقت گزاری ہے مگر سو ہنی سچ مچ اُن وعدوں کے فریب میں آ جاتی ہے۔چھوٹا چودھری امریکا چلا جاتا ہے، وہیں شادی کر لیتا ہے اور ایک عرصے بعد بیوی اور بچوں کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے۔اِس دوران ماسی خیراں کی بیٹی سو ہنی سے ’’رودالی‘‘ بن چکی ہوتی ہے۔یہاں قاری کو لفظ ’’رودالی‘‘ پر غور کرنا ہو گا۔
’’پتھر کا زمانہ‘‘ میں جاہل سماج کے دو رخ دکھائے گئے ہیں،ایک تو یہ کہ عورت بیٹا نہ جنے تو گناہ گار اور مجرم۔ سائیں امیر بخش اپنی بیوی سے نرینہ اولاد چاہتا ہے اِس لیے اُس کی بیوی رانی بے چاری خوف زدہ ہے کہ اگر بیٹا نہ جنا تو غضب ہو جائے گا اور دوسری طرف جب امیر بخش کا بیٹا شاہ میر کسی نوجوان کو قتل کر کے خوف زدہ ہے کہ پھانسی نہ چڑھ جائے تو امیر بخش اُس مشکل کا یہ حل نکالتا ہے کہ اپنی بیٹی بھاگ بھری کو کاری قرار دے کر شاہ میر کے ہاتھوں قتل کروانے کا فیصلہ کر لیتا ہے تا کہ جائیداد کا بٹوارہ بھی نہ ہو اپنے ہی پاس رہے اور غیرت کے نام پر قتل کی وجہ سے بیٹے کی جان بھی بچ جائے۔
افسانہ ’’پرواز‘‘ بھی بھر پور تاثر کا حامل ہے۔یہ افسانہ نگار کی دوست ’’فائزہ‘‘ کی کہانی ہے جو اپنی محبت ’’عرفان‘‘ کو اپنا شاہجہاں قرار دیتی ہے اور مصنفہ سے اکثر کہتی ہے کہ دیکھنا اگر کبھی مجھے کچھ ہوا تو عرفان میرا شاہجہاں ثابت ہو گا۔فائزہ جو ایک بنک میں ملازم ہے۔ ایک دن بنک میں ڈکیتی کی واردات کے دوران گولی لگنے سے خالقِ حقیقی سے جا ملتی ہے۔ڈاکو جو قاتل بن چکے ہوتے ہیں گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ مقدمہ چلتا ہے۔ فیصلے کا دن آ پہنچتا ہے۔ مصنفہ بھی عدالت میں موجود ہے۔افسانے کا اختتامیہ ملاحظہ کیجیے:
’’آج فیصلے کا دن تھا، میں کورٹ میں دوسری رو  میں بیٹھی فیصلے کا انتظار کر رہی تھی۔ میرے برابر والی کرسی خالی تھی، مجھے ایسا لگا کہ فائزہ وہاں آ کر بیٹھ گئی ہے۔اُس کے الفاظ میرے کانوں میں گو نجنے لگے، دیکھ لینا اگر مجھے کچھ ہو گیا تو عرفان آج کا شاہجہاں ہے اور میں آج کی ممتاز محل، یقینا وہ میرے لیے کچھ الگ کرے گا۔بس چانس ملنے کی دیر ہے!
پھر مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا کارروائی ہوئی۔ کیا کیا دلائل پیش کیے گئے۔مجھے تو بس اتنا یاد ہے کہ میں نے دیکھا کہ آج کے شاہجہاں نے اپنی ممتاز محل کے قاتل کو کاغذ کے چند ٹکڑوں کے عوض معاف کر دیا!
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ فائزہ کی روح نے تیزی سے آسمان کی طرف پرواز کی مگر یہ صرف روح کی نہیں بلکہ محبت کی پرواز تھی اور محبت کی اِس پرواز نے دنیا میں جہاں جہاں محبت تھی، جہاں جہاں وفا تھی، جہاں جہاں یقین تھا اُن سب کو بھی اپنے ساتھ محو پرواز کر لیا۔سچ ہے زمانہ بدل گیا ہے!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment