نسیمِ سحر ۔۔۔ کسی عشق میں مبتلا آدمی ہوں

کسی عشق میں مبتلا آدمی ہوں
تو مطلب یہ ہے، لادوا آدمی ہوں

زمیں نے کوئی قدر میری نہیں کی
کہ میں آسماں سے گرا آدمی ہوں

گنہ گار لوگوں نے دی ہے گواہی
کہ میں تو بڑا پارسا آدمی ہوں

یہ افواہ اُس بے وفا نے اڑائی
کہ میں تو بڑا بے وفا آدمی ہوں

پرانے زمانے سے آیا ہوں، لیکن
حقیقت یہی ہے، نیا آدمی ہوں

میں دیکھ اور سن بھی رہا ہوں سبھی کچھ
میں سویا نہیں، جاگتا آدمی ہوں

بظاہر تو لگتا نہیں ہوں حسینی
مگر کربلا کربلا آدمی ہوں

مرے پاس آتے ہی جل جاؤ گے تم
میں کچھ اس قدر دل جلا آدمی ہوں

یہ ثابت کیا برق رفتاریوں سے
خلا کے سفر میں ہَوا آدمی ہوں

دوبارہ کوئی چاک پر رکھ دے مجھ کو
شکستہ ہوں ، ٹوٹا ہوا آدمی ہوں

مرا ذکر ماضی کے صیغے میں کرنا
بس اتنا سمجھ لو، گیا آدمی ہوں

نہ جانے میں کب مار ڈالوں گا خود کو
نسیمِ سحرؔ، سر پھرا آدمی ہوں

Related posts

Leave a Comment