سید ضیا حسین ۔۔۔ ایک لڑکی

بین الاقوامی تعلقات میں گریجویشن کرتی ہوئی لڑکی
یہ تو جانتی ہو گی
کہ اکثر دوستیاں دائمی نہیں ہوتیں
یہ بنتی ہیں، بگڑتی ہیں
بس مفادات کی خاطر
یہ دوستی تب تک ہی رہتی ہے
جب تک کسی کو حاجت رہتی ہے کسی کی
ورنہ کچھ نہیں
دوستی کے یہ بندھن
پل میں ٹوٹ جاتے ہیں
دوست بن جاتے ہیں دشمن
اور دشمن دوست بنتے ہیں

یہ لڑکی
یہ بھی جانتی ہو گی
کہ چھوٹوں کی تو کوئی مرضی نہیں ہوتی
انھیں توچاہنا ہے بس وہ ہی
جو چاہتے ہیں بڑے اُن کے
انھیں تو کرنا ہے بس وہ ہی
جو کہتے ہیں بڑے ان کے
انھیں تو اپنی مرضی سے خواب بھی نہیں دیکھنا کوئی

مگر یہ لڑکی
سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے پھربھی
اپنے سارے سبق بھلا بیٹھی
اک لڑکے سے دل لگا بیٹھی
اس کے ساتھ گھر بسانے کے
خواب آنکھوں میں سجا بیٹھی
وہ یہ بھول بیٹھی تھی
کہ ایسی دوستیاں دائمی نہیں ہوتیں

اس کے بڑوں نے پھر اس کو
یاد کروائے، وہ سبق سارے
جنھیں وہ بھول بیٹھی تھی
بڑوں نے اپنی چھوٹی پر
پابندیاں لگا دی ہیں
اب وہ سر پٹختی ہے
اسے اب آگے نہیں پڑھنا
اسے اب وہ ہی کرنا ہے
جو کہتے ہیں بڑے اُس کے
اُسے چپ چاپ اب توبیٹھ جانا ہے
اپنے اک کزن کی ڈولی میں
اسے اب سارے خواب بھول جانے ہیں
اُسے پھر یاد کرنے ہیں
وہ سبق سارے
جو وہ بھول بیٹھی تھی

Related posts

Leave a Comment