خورشید رضوی ۔۔۔ یہ سلسلہ ہے عجب ، سربسر ، بنایا ہوا

یہ سلسلہ ہے عجب ، سربسر ، بنایا ہوا
یہ دل ، دلوں میں یہ شوقِ سفر ، بنایا ہوا

بنی ہوئی سرِ قرطاس اک خیال کی دھوپ
اور  اُس میں سایہ کناں اک شجر بنایا ہوا

تھکے ہوئے در و دیوار ہیں نہ دو دستک
کہ گر پڑے نہ کہیں گھرکا گھر بنایا ہوا

بجا ہے ہم پہ اگر آپ کی ہے مشقِ ستم
ہمیں نے آپ کو ہے معتبر بنایا ہوا

زمانہ یوں ہے کہ جیسے کوئی حصارِ کُہن
بنا کے ، توڑ کے ، بارِ دگر بنایا ہوا

کبھی لُبھاتا ہے مجھ کو کبھی ڈراتا ہے
کسی خیال کے کاندھوں پہ سر بنایا ہوا

جو زندہ آئے وہ رکھے سنبھل سنبھل کے قدم
ہے مُردگاں نے بہت کرّو فر بنایا ہوا

مری بیاضِ تمنّا میں ہے بس ایک ہی نقش
سو وہ بھی آپ کے زیرِ اثر بنایا ہوا

ہمیں تو قبلہ نما ہے وہ روزنِ دیوار
سو ہم نے ہے اُسی جانب کو در بنایا ہوا

بس آنکھ میچ کے صدیوں کے پار جانکلیں
یہ راستہ ہے ، بہت مختصر ، بنایا ہوا

تو پھر یہ سوچ کہ کیا بن سکے گا آخرِکار
یونہی مٹاتے رہے ہم اگر بنایا ہوا

Related posts

Leave a Comment