زیب النسا زیبی ۔۔۔ دو غزلیں

تتلی کے پر و بال بنانے میں لگی ہوں
جگنو کو نئی راہ دکھانے میں لگی ہوں

وہ ہیں کہ پرندوں کو بھی جینے نہیں دیتے
میں ہوں کہ فقط پیڑ اگانے میں لگی ہوں

اب تک تو تجھےدل سے اتارا نہیں میں نے
اب تک میں ترا،ہجر منانے میں لگی ہوں

کیا میں بھی تری آنکھ کاپتھر ہوں بتا یہ
کیا میں بھی ترے خواب مٹانے میں لگی ہوں

غم پہ مجھے رونا نہیں آتا ہےبہت دیر
خوشیاں میں ترے جگ سے چُرانے میں لگی ہوں

تاروں سے محبت ہے،اسی واسطے زیبی
بچوں کو نئے گیت سنانے میں لگی ہوں

۔۔۔۔۔

انسان کوئی بھی تو فرشتہ  بنا نہیں
سچ پوچھیے تو کوئی یہاں بے خطا نہیں

قائم رہے جو توبہ پہ ساقی کے روبرو
ایسا تو میکدے میں کو ئی پارسا نہیں

ہم ہیں قصور وار ہمیں اعتراف ہے
تہمت لگانے والے بھی تو دیوتا نہیں

وہ جس کو اپنے دل کا فسانہ سنا سکیں
ہم کو تو ایسا شخص ابھی تک ملا نہیں

چہرہ بدل بدل کے وہ آیا ہے بار بار
لیکن کسی بھی چہرے میں مجھ سے چھپا نہیں

وہ بے وفا تھا چھوڑ کے مجھ کو چلا گیا
میں بھول جاؤں اس کو ، مگر بھولتا نہیں

کشتی کو تونے چھوڑ دیا یوں ہی نا خدا
کیا تو سمجھ رہا ہے ہمارا  خدا نہیں

اس کے قریب جاؤں تو ملتا نہیں ہے وہ
اور دور ہو بھی جاؤں تو مجھ سے جدا  نہیں

زیبی رفیق ہوتے ہیں سب اچھے دور کے
جب  وقت ہو کڑا کوئی پہچانتا نہیں

Related posts

Leave a Comment