شفیق احمد خان ۔۔۔ لاکھ خاموش رہوں پھر بھی یہ غم بولتا ہے

لاکھ خاموش رہوں پھر بھی یہ غم بولتا ہے
دل فسردہ ہو تو خود آنکھ کا نم بولتا ہے

اُس کے لہجے سے جھلکتی ہے کہانی اُس کی
اُس کے چہرے پہ لکھا جور و ستم بولتا ہے

وہ تو حیرت سے نکلنے نہیں پاتا پل بھر
ساتھ چلتا ہے تو ہر ایک قدم بولتا ہے

بات کرتا ہے کسی تلخ لب و لہجے میں
جب رگ و پے میں کسی یاد کا سم بولتا ہے

شعر خوں بن کے رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں
درد لفظوں کا سرِ لوح و قلم بولتا ہے

گلشنِ عالم اسرار بلاتا ہے کہیں
طائرِ غیب سرِ شاخِ عدم بولتا ہے

میری گفتار طرازی سے وہ خائف ہے شفیق
جس کو شکوہ تھا کبھی مجھ سے کہ کم بولتا ہے

Related posts

Leave a Comment