میر تقی میر ۔۔۔ نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا

نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاد وہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

لطف اگر یہ ہے بتاں صندلِ پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیحِ سلیمانی کا

درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں
سَیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسفِ زندانی کا

کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی اپنی بھی نادانی کا

وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب
ہم نے سرنامہ کیا کاغذِ افشانی کا

اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میر ایسی مسلمانی کا

Related posts

Leave a Comment