سید فخرالدین بلے فیملی اور  محسن نقوی ، داستانِ رفاقت ۔۔۔ظفر معین بلے جعفری

سید فخرالدین بلے فیملی اور  محسن نقوی ، داستانِ رفاقت
ولادت : 5۔ مٸی 1947 . ڈیرہ غازی خان ‘ شہادت : 15۔ جنوری 1996 . لاہور
تحریر و تحقیق اور انتخابِ کلام : : ظفر معین بلے جعفری

سیدی محسن نقوی شاہ جی سراپا محبت تھے نہیں ہیں ان کی محبت بھی زندہ ہے اور وہ بھی۔ سوچتا ہوں کہ کبھی لکھوں ”محسن نقوی اور بلؔے فیملی = داستانِ رفاقت“
لیکن برسوں کی رفاقت کو چند سو صفحات میں بھی کیسے سمیٹ پاٶں گا۔ دس برس سے زائد عرصہ تو ایسا گزرا کہ سیدی جناب محسن نقوی صاحب والدِ گرامی کی اقامت گاہ پر تقریبا” رات بارہ ساڑھے بارہ بجے آیا کرتے تھے اور اذانِ فجر پر رخصت ہوجاتےتھےرات بھر دھواں دھار شاعری کا دور چلتا۔چائے ۔سگریٹ ۔پان۔کافی اور قہقہوں کے ساتھ شاعری اکثر تو ہماری فرمائش پر اپنی شاعری سناتے ہی تھے اور مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ صرف مکمل ”فراتِ فکر “ ہم نے اپنے ہی غریب خانے پر کم از کم چھ سات مرتبہ سنی ہوگی اور ویسے بھی شاید ہی سیٌدی محسن نقوی شاہ کا کوئی ایسا کلام ہو جو ہم نے ان سے اپنے غریب خانے پر یا ”ہاٹ پاٹ“پر (فورٹریس اسٹیڈیم پر واقع ایک ریسٹورینٹ میں) نہ سنا ہو۔ لیکن ایسا بھی اکثر ہوتا کہ فرماتے سیٌد جانی (یا) سیٌدی کہہ کر مخاطب کرتے) اور مخاطب کرتے ہی فرماتے آج میں آپ کو آنؔس معین کا کلام سناتا ہوں اور پھر نان سٹاپ ایک کے بعد ایک آنؔس معین کی غزل اور نظم سناتے اور سناتے ہی چلے جاتے اور ساتھ ساتھ فرماتے کہ آنکھوں کی بصارت۔ کانوں کی سماعت اور دلوں کی دھڑکن کا وجود جب تک قائم ہے آنؔس معین کا کلام پڑھا اور سنا  جاتا رہے گا اور آنؔس معین اہل ادب کے دلوں کی دھڑکن بنا رہے گا ۔  سیدی محسن نقوی کو  آنؔس معین کا بیشتر کلام حفظ تھا مجھ سے تو نہیں لیکن ہاں ہمارے والدِ گرامی قبلہ سید فخرالدین بلؔے شاہ صاحب سےفرمائش کرکے سیٌدی محسن نقوی نے آنؔس معین کا کلام حاصل کیا تھا گو کہ مجھ سے ان کی حد درجہ بے تکلفی تھی دوستانہ اور برادرانہ مراسم تھے لیکن مجھ سے انہوں نے آنؔس معین کا کلام کبھی نہیں مانگا۔
 یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیٌدی محسن نقوی ہمارے والدِ گرامی کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے اور جناب ِ امیر علی ع کی سیرتِ پاک کے حوالے سے تحقیقی تصنیف کا جو ایک نسخہ جو ڈرائنگ روم کے شوکیس میں رکھا ہوا تھا اسے ہمیشہ آتے وقت اور بوقتِ رخصت لازما“ چومتے اور آنکھوں سے لگاتے اور کہتے یا سیٌد فخرالدین بلؔے شاہ مولا آپ کو سلامت رکھیں ۔ ان کے اس عمل کے جواب میں اکثر ان سے کہتا کہ والدِ گرامی ساتھ والے کمرے میں ہیں یا برٌج کھیل کر لوٹ رہے ہونگے انہی کے سامنے ان کا قصیدہ پڑھیے گا اور سیٌدی محسن نقوی شاہ جی آپ نے تو ابو جانی سے”ولایت پناہ“کا ایک نسخہ لے لیا تھا تو آپ آتے ہوئے اپنے اسی نسخے کو کیوں نہیں چوم کر آتے وہ مسکراتے ہوئے کہتے سٌیٌدی ظفر جانی قسم ہے مولا حسین کی کہ جب جب یہ نسخہ میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے میں اسے چومتا ہوں اور میں قبلہ سیٌد فخرالدین بلؔے شاہ صاحب کا اپنے باپ دادا جیسا احترام کرتا ہوں ان کے سامنے کبھی سگریٹ پینا تو بڑی بات منہ میں پان بھی ہوتا ہے تو تھوک دیتا ہوں۔ بعض اوقات تو ان کی گفتگو کا مرکز و محور ہی بابا جانی قبلہ سیٌدفخرالدین بلؔے شاہ ہو جاتے۔ عرفان حیدر عابدی بھی محسن نقوی کے جگر جانی اور بے تکلف دوستوں میں سے تھے ۔ جب کبھی عرفان حیدر عابدی کراچی سے لاہور تشریف لایا کرتے تو ہمیشہ ہی وہ نجف ریزہ محسن نقوی کے دولت کدہ پر قیام فرماتے۔ محسن نقوی متعدد بار اپنے مہمان عرفان حیدر عابدی کے ہمراہ بھی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کی خدمت میں حاضر ہوٸے ۔ سیدی محسن نقوی جب پہلی مرتبہ عرفان حیدر عابدی کو اپنے ہمراہ  ہمارے ہاں تشریف لاٸے تو انہوں نے والد گرامی سے گزارش کی بلے بھاٸی صاحب آج ہم جناب علامہ عباس حیدر عابدی صاحب کے فرزند عرفان حیدر عابدی کی خواہش پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوٸے ہیں۔ عرفان صاحب کی نظر ہمارے گھر میں رکھے ہوٸے آپ کے عطا کردہ ولایت پناہ کے نسخے پرتھی تو ہم نے عرض کیا کہ معذرت چاہتا ہوں یہ آپ لے جا نہیں سکتے البتہ یہاں رہتے ہوٸے اس کا مطالعہ فرماسکتے ہیں ۔ تب عرفان صاحب نے کہا کہ ہمیں سید سرکار فخرالدین بلے شاہ صاحب کے ہاں لے چلیں ۔ ہماری سفارش پر ولایت پناہ کا ایک نسخہ ان کو بھی عطا فرما دیں۔ قول ترانہ ۔ من کنت مولا ، فھذا علی مولا ۔ کی چاردھنوں والا آڈیو کیسٹ میں نے خود کاپی کروا کر جانی جگر عرفان عابدی کو دے دیا ۔ محسن نقوی ادبی محفلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ سید فخرالدین بلے نے مولائے کائنات حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی سیرت و شخصیت کے حوالے سے جو تحقیقی کتاب” ولایت پناہ “ لکھی ہے ، اس کا مسودہ دیکھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امیرخسرو کے سات صدیوں کے بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جو قول ترانہ تخلیق کیا وہ ایک تخلیقی معجزہ ہے اور اس قول ترانے میں محترم بھاٸی فخرالدین بلے شاہ صاحب نے فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ اس کتاب (ولایت پناہ) کا نچوڑ پیش کردیا ہے ، اسی لئے یہ قول ترانہ سننے والوں کو اپنے دلوں میں اترتا اور دعوت ِ فکر دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=

   منقبت ِ علی المرتضیٰ ؑ       …سید فخرالدین بَلّے

مرا سفینۂ ایماں ہے ، ناخدا بھی علی ؑ
مری نماز علی ؑ ہے ، مری دعاءبھی علی ؑ

وجود و واجد و موجود و ماجرا بھی علیؑ
شہود و شاہد و مشہود و اشتہا بھی علیؑ

ہے قصد و قاصد و مقصود و اقتضا بھی علی ؑ
رضا و راضی ، رضی اور مرتضیٰ ؑ بھی علیؑ

مرے لئے ہیں سبھی اجنبی علی ؑ کے سِوا
مرے لئے تو ہے تمہیدِ اقرباءبھی علیؑ

ہے اُس کی ذا ت میں مرکوز عصمتِ تخلیق
ابو لائمہ بھی ہے ، زوجِ ِفاطمہؓ بھی علیؑ

اَبو ترابؑ و شرف یابِ آیۂ تطہیر
ہے راز دارِ حِرا و مباہلہ بھی علیؑ

وہی مسیحؑ کا ایلی ہے ، خضرؑ کا رہبر
وہی ہے شیرِ خدا ، موسویؑ عصا بھی علیؑ

وہی ہے نقطۂ باء اور مُعلّمِ جبریلؑ
ہے بابِ علم بھی اور حجّتِ خدا بھی علیؑ

حنین و بدر و اُحد ہوں کہ خندق و خیبر
ہے کار ساز و ید اللہ ولا فتی بھی علی ؑ

خدا کے گھر میں ولادت ہوئی شہادت بھی
خدا کے گھر میں ہے بردوشِ مصطفی بھی علی ؑ

نمازِ عصر کی خاطر پلٹ گیا سورج
ہے قیدِ عصر سے والعصر ماورا بھی علی ؑ

وہ ذوالعشیر کا داعی ، ” خلیفتی فیکم “
شریکِ عقدِ مواخاتِ مجتبیٰ بھی علی ؑ

ملیکِ اَمر ، ولایت پناہ ، ظلِ اِللہ
عطا وجود و سخا ، فقر کی رِدا بھی علی ؑ

ہے رازِ کن فیا کوں ، مظہر العجائب ہے
کہ انتہا ہے علی ؑ اور منتہیٰ بھی علی ؑ

  منقبت ِ علی المرتضیٰ ؑ       …سید فخرالدین بَلّے
لاہور ہی میں سید فخرالدین بلے کی زبانِ حق بیان سے یہ منقبتِ علی المرتضی علیہ السلام سن کر محسن نقوی نے منظوم داد دی اور فی البدیہہ چند اشعار سپردِ قرطاس و قلم کر دیٸے۔
=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=۔
ہوں لب کشا میرے بھاٸی بَلّے تو ان کا عرفان بولتا ہے
علی کی یہ منقبت سنو ، عشقِ کلِ ایمان بولتا ہے

علی علی کی صداٸیں بھی سن رہا ہوں میں ان کی دھڑکنوں میں
فضاٶں پر ہے یوں وجد طاری کہ ان کا وجدان بولتا ہے

کلامِ میں فخرِ دین کے بےشک خمار خمِ غدیر کا ہے
لنڈھاٸے ہیں ساغرِ ولایت نبی کا فرمان بولتا ہے

——(محسن نقوی)——-۔۔

آنؔس معین کا  کلام کیونکہ سیٌدی محسن نقوی نے ”نجف ریزہ“ میں رکھا تھا تو برادرِ عزیز سیٌدی عقیل محسن نقوی صاحب نے بالکل بجا یاد دلایا کہ وہ خود ان کی نظر سے بھی گزرا ہے۔اور اگر وہ نظر سے گزرا ہے تو پھر یقینا“ ”ولایت پناہ“ کا نسخہ بھی ان کی نظر سے گزرا ہو

کبھی موڈ ہوتا تو کہتے سیٌدی جانی آپ جون ایلیا کے پڑھنے کے انداز کی زبردست کاپی کرلیتے ہیں آج آپ جون ایلیا کا کلام سنائیں جو بھی یاد ہے پھر میں بھی جون کا کلام سناٶں گا۔ کبھی حضرت جوش کا اور کبھی منیر نیازی کا تو کبھی مجید امجد یا بھائی جان خالد احمد صاحب کلام کا الغرض جو بھی شاعر اس دن ان کے اعصاب پر سوار ہوتا اس کا کلام سناتے بھی اور ہمیں بھی سنانے کی آزمائش میں ڈالتے۔
اگر سہہ پہر میں ان کو فراغت ہوتی تو ہم لارنس گارڈن کی سیر کو نکل جاتےاور وہاں جاکر گول گپے یا دہی بھلے اور اس کے بعد لازمی طور چائے یا کافی انجوائے کرتے۔ عموما“ شام ہماری ہاٹ پاٹ پر گزرتی۔ اور رات بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے کی کٹیا میں۔ سیٌدی محسن نقوی مجھے بے شمار مرتبہ مجلس پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے ساتھ لے جاتے ۔ کربلا گامے شاہ مجھے ان کے ساتھ کتنی مرتبہ جانے اور شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا مجھے خود یاد نہیں لیکن ہاں لاہور سے باہر میں ان کے ساتھ صرف تین چار مرتبہ ہی گیا ہوں گا۔

اللہ اکبر اللہ اکبر واللہ اکبر

نعتیہ کلام :۔ محسن نقوی

چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں

ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارِض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیت کے اَمیں ہیں

گیسو ہیں کہ ”وَاللَّیل“ کے بکھرے ہوئے سایے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں

گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثریا
لب، صورتِ یاقوت شعاعوں میں دُھلے ہیں

قَد ہے کہ نبوت کے خد و خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلَم ہیں

سینہ ہے کہ رمزِ دلِ ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں

باتیں ہیں کہ طُوبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے

خطبے ہیں کہ ساون کے امنڈتے ہوئے دریا
قِرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے

یہ دانت، یہ شیرازۂ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے

شرمندۂ تابِ لب و دندانِ پیمبرﷺ
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے

یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم

یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم

یہ ہاتھ، یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و انجیل

یہ پاؤں،یہ مہتاب کی کرنوں کے مَعابِد
یہ نقشِ قدم، بوسہ گہِ رَف رَف و جبریل

یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل!
یہ بندِ قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید

یہ سایۂ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید

یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب

رخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب

ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئینِ شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال

ملبوسِ کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رُخِ ہستی کے خد و خال

رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے

گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن
معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے

وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی

وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ حُسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی

وہ علم کہ قرآں تِری عِترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی امیدِ کرم ہے

وہ صبر کہ شبیرؑ تری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمُم ہے

نعتیہ کلام :۔ محسن نقوی

الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے

سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے

آیات کی جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے

اب کون حدِ حسن طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہ دستِ دعا ہے

ہے تیری کسک میں بھی دمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ مرا قریہ جاں گونج اُٹھا ہے

خورشید تری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب ترا ریزہ نقشِ کفِ پا ہے

واللیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے

لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ
صدیوں میں بکھر کر بھی ترا عشق نیا ہے

یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اُوڑھ لیا ہے

یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر
یا دن ترے اندازِ صباحت پہ گیا ہے

رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے

خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہر اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے

اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے

دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو ترا لطف تو صرصر بھی صبا ہے

غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے

ہر سمت ترے لطف و عنایات کی بارش
ہر سو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے

ہے موجِ صبا یا ترے سانسوں کی بھکارن
ہے موسم گل یا تری خیراتِ قبا ہے

سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا ترا حبشی
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے

ثقلین کی قسمت تری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے

اُترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآن تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے

اب اور بیاں کیا ہوکسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے

اے گنبدِ خضرا کے مکین میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے

بخشش تری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسؔن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے

نعت رسول مقبول ص ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی شہید اہل بیت اطہار ع

کبھی جو اس میں رسول۴کانقش پاملاھے
ھمارے دل کو مقام غار حرا ملا ھے

عجیب سرھے کہ عرش تک سرفراز ٹھہرا
عجیب در ھے کہ اس پہ آکر خدا ملا ھے

میں تیری مدحت کو کس بلندی پہ حرف سوچوں
تو انبیا۴ء کے ھجوم میں بھی جدا ملا ھے

نہ پوچھ تجھ پر سلام کہنے میں کیا کشش تھی
کبھی خدائی، کبھی خدا ھم نوا ملا ھے

اسے تو محشر کی دھوپ بھی چاندنی کا "چولا”
وہ دل جسے تیرے شوق کا آسرا ملا ھے

عطا ھو بخشش وگرنہ دنیا یہ پوچھتی ھے
کہ بول پیاسے تجھے سمندر سے کیا ملا ھے؟

مری نگاھوں میں منصب و تاج و تخت کیا ہیں؟
کہ فقر تیرے کرم سے بے انتہا ملا ھے

یہ ناز ھے امّتی ہوں میں اس نبی۴ کا محسن
جسے نواسہ حسین۴ سا لاڈلا ملا ھے

سید محسن نقوی

 🥀 ♥️خَطیبِ نُوکِ سِناں♥️سیدمحسن نقوی 🥀🌹.

شبیرؑ کربلا کی حکومت کا تاجدار
وَحدت مِزاج  ، دُوش نَبوت کا شَہسوار

ہے جس کی ٹھوکروں میں خُدائی کا اِقتَدار
جس کے گداگروں سے ہَراساں ہے روزگار

جس نے زَمیں کو عَرش کا مُقَدر بنا دیا
ذَروں کو آفتاب کا مِحوَر بنا دیا

وہ جس کی بندگی میں سمٹتی ہے دَاوری
کھولے دِلوں پہ جس نے رَمُوزِ دِلاوری

ُلُٹ کر بھی کی ہے جس نے شَرِیَعت کی یَاوری
جس نے سَمندروں کو سکھائی شنَاوری

وہ جس کا غم ہے اَبر کی صُورت تَنا ہوا
صحرا ہے رَشکِ موجہ کُوثَر بنا ہوا

جس کی خَزاں بَہارِ گُلستَان سے کم نہیں
جس کی جَبیں لَطافتِ قُرآن  سے کم نہیں

جس کا اَصُول حِکمتِ یَزداں سے کم نہیں
جس کی زَمیں خُلد کے اِیواں سے کم نہیں

وہ جس کی پیاس مَنزلِ آبِ حیات ہے
وہ جس کا ذِکر آج بھی وَجہ نَجات ہے

وہ کہکشاں جَبیں وہ ذَبِیحِ فَلک مَقام
جس نے جَبینِ عَرش پہ لکھا بَشر کا نام

جس نے کیا ضَمیرِ بَقا میں سَدا قیام
جس کی عَنایتوں کو سَخاوت کرے سَلام

نوکِ سِناں کو رُتبَہ مِعرَاج بَخش دے
ذَروں کو جو فَلک کا حَسیں تَاج بَخش دے

کَنکر کو دُر بنائے کہاں کوئی جَوہر
ایجاد کی حسینؑ نے یہ کیمیا گری

بَخشی ہے یُوں بَشر کو مَلائک پہ بَرتَری
بچوں کو ایک پَل میں بناتا گیا جَرِی

وہ جس نے شَک کو حق کا قَرینہ سکھا دیا
جس نے بَشر کو مَر کے بھی جِینا سکھا دیا

جو میرِ کَاروانِ مودت ہے وہ حسینؑ
جو رَازدارِ  کِنزِ  حَقیقت ہے وہ حسینؑ

جو مرکزِ نگاہِ مَشِیت ہے وہ حسینؑ
جو تَاجدَارِ مُلکِ شَریعت ہے وہ حسینؑ

وہ جس کا عَزم آپ ہی اپنی مِثَال ہے
جس کی ”نہیں“  کو ہاں میں بَدلنا مُحَال ہے

مولا ، تو جِی رَہا ہے عَجَب اِہتمَام سے
سمجھے ہیں ہم خُدا کو بھی تیرے کَلام سے

کِرنِیں وہ پُھوٹتی ہیں سَدا تیرے نام سے
کرتے ہیں تیرا ذِکر سَبھی اِحترام سے

پایا ہے وہ مَقام اَبد تیرے نام نے
آیا نہ پھر یزید کوئی تیرے سامنے

        شہید محسن نقوی
محسن نقوی شہید کے مجوعہ کلام فراتِ فکر کے چند صفحات پر یہ دعاٸیہ کلام دستیاب ہے۔ محسن نقوی شہید کہ جن کا تقریباً بارہ تیرہ برس یہ معمول رہا کہ وہ رات بارہ ایک بجے کے قریب قبلہ والد گرامی سید فخرالدین بلّے شاہ صاحب کے غریب خانے پر تشریف لاتے اور اذان فجر پر رخصت ہوجایا کرتے تھے۔ ”فراتِ فکر“ کا مکمل مجموعہ کلام محسن نقوی شہید کی زبانی متعدد بار جب جب بھی سنا ایک ہی نشست میں سنا ہم نے اور ہمارے اہلِ خانہ نے۔ ماشا ٕ اللہ ما شا ٕ اللہ
کراچی اور متعدد شہروں کی امام بارگاہوں میں مجالس کے اختتام پر یہ دعائیہ کلام پڑھنے کی روایت قابل صد ستاٸش اور باعث خیر و برکت ہے۔

دعائیہ کلام:
اے ربِ جہاں!! پنجتن پاک کے خالق
اس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے

بچوں کو عطا کر علی اصغر کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابن مظاہر کی نظر دے

کم سن کو ملے ولولہِ عون و محمد
ہر اک جواں کو علی اکبر کا جگر دے

مائوں کو سکھا ثانیِ زھرا کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہ کی دعائوں کا اثر دے

مولا تجھے زینب کی اسیری کی قسم ہے
بےجرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے

جو چادر زینب کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے

جو دین کے کام آئے وہ اولاد عطا کر
جو مجلس شبیر کی خاطر ہو وہ گھر دے

یا رب!! تجھے بیماری عابد کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحر دے

مفلس پہ زر و لعل و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے

غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غم شبیر
شبیر کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے

ﺳﯿﺪ ﻣﺤﺴﻦ نقوی ﮐﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﺎﻡ ﺳﯿﺪ ﻏﻼﻡ ﻋﺒﺎﺱ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﻔﻆ ﻣﺤﺴﻦ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺗﺨﻠﺺ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﻔﻆ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺗﺨﻠﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﺑﺤﯿﺜﯿﺖ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻋﺮ ﺍنھوں ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍِﺳﯽ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ 5 ، ﻣﺌﯽ 1947ﺀ ﮐﻮ ﻣﺤﻠﮧ ﺳﺎﺩﺍﺕ، ﮈﯾﺮﮦ ﻏﺎﺯﯼ ﺧﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ. ﺍنھوں ﻧﮯ ﮔﻮﺭﻧﻤﻨﭧ ﮐﺎﻟﺞ ﺑﻮﺳﻦ ﺭﻭﮈ ﻣﻠﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺠﻮﯾﺸﻦ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮔﻮﺭﻧﻤﻨﭧ ﮐﺎﻟﺞ ﺑﻮﺳﻦ ﺭﻭﮈ ﻣﻠﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺠﻮﯾﺸﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮈﯾﭙﺎﺭٹمنٹ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﺴﻦؔ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﻣﺠﻤﻮعہ ﮐﻼﻡ ﭼﮭﭙﺎ۔ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﺩﺑﯽ ﺳﺮﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﺼﮧ ﻟﯿﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍنھیں ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺷﮩﺮﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﺧﻄﯿﺐ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ. ﻣﺠﺎﻟﺲ ﻣﯿﮟ ﺫﮐﺮِ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕِ ﮐﺮﺑﻼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍہل بیت ﭘﮧ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻣﺮﺛﯿﮧ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍنھوں ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺮﺑﻼ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮮ ﺟﺎﺑﺠﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ کیے. ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻧﯿﻒ ﻣﯿﮟ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﺪ، ﺧﯿﻤﮧ ﺟﺎﻥ، ﺑﺮﮒ ﺻﺤﺮﺍ، ﻃﻠﻮﻉ ﺍﺷﮏ، ﺣﻖ ﻋﺎﻟﯿﮧ، ﺭﺧﺖ شب ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﻋﻨﺼﺮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﻭﻣﺎﻧﻮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﺻﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺌﯽ ﻏﺰﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺯﺩ ﻋﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﻧﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﯾﺎﺏ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﭘﮩﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺍِﮎ ” ﺟﻠﻮﮦ “ ﺗﮭﺎ، ﺳﻮ ﮔُﻢ ﺗﮭﺎ ﺣﺠﺎﺑﺎﺕِ ﻋﺪﻡ ﻣﯿﮟ
ﺍِﮎ ” ﻋﮑﺲ“ ﺗﮭﺎ، ﺳﻮ ﻣﻨﺘﻈﺮِ ﭼﺸﻢِ ﯾﻘﯿﮟ ﺗﮭﺎ

ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﮯ ﻏﺰﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﻢ ﮐﮯ ﻗﺎﺩﺭ ﺍﻟﮑﻼﻡ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺁﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯿﮟ۔ ﻣﺤﺴﻦ ﮐﯽ ﻧﺜﺮ ﺟﻮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﯼ ﻣﺠﻤﻮﻋﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﯾﺒﺎﭼﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ تخلیقی ﺗﺤﺮﯾﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﻒِ ﺍﻭّﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻒِ ﺳﺨﻦ ﯾﻌﻨﯽ ﻗﻄﻌﮧ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﯿﮟ. ﺍِﻥ ﮐﮯ ﻗﻄﻌﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ”ﺭﺩﺍﺋﮯ ﺧﻮﺍﺏ” ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﺷﻌﺮﯼ ﻣﺠﻤﻮﻋﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮯ ﺣﺪ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻧﻘﺎﺩﺍﻥِ ﻓﻦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﻄﻌﮧ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﮯ ﺑﺎﺏ ﮐﺎ ﺍِﺿﺎﻓﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻧﻮﻋﯿﺖ ﮐﮯ ﻗﻄﻌﺎﺕ ”ﻣﯿﺮﺍﺙِ ﻣﺤﺴﻦ” ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺩﺭﺝ کیے ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ. ﻣﺤﺴﻦ ﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﮐﮯ لیے ﺟﻮ ﻗﻄﻌﺎﺕ ﻟﮑﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻧﻮﻋﯿﺖ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮩﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﺤﺴﻦ ﺗﮭﺎ.
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﺷﺎﻋﺮ ﺍﮨﻞِ ﺑﯿﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔
ﺍﺭﺩﻭ ﻏﺰﻝ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﺍ ﻧﮯ ﻧﯿﺎ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﻧﺌﮯ ﺭﺟﺤﺎﻧﺎﺕ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﮯ۔ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮩﯽ ﺷﻌﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ جنھوں ﻧﮯ ﻏﺰﻝ ﮐﯽ ﮐﻼﺳﯿﮑﯽ ﺍﭨﮭﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﻧﺌﯽ ﺷﮕﻔﺘﮕﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ۔ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﮐﺎ ﺗﻨﻮﻉ ﮨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﯿﻔﯿﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺍنھوں ﻧﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﻃﺮﺯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺣﺼﮧ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮨﮯ۔ ﺍنھوں ﻧﮯ ﮐﺮﺑﻼ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻟﮑﮭﯽ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﮐﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪِ ﻗﺒﺎ، ﺑﺮﮒِ ﺻﺤﺮﺍ، ﺭﯾﺰﮦ ﺣﺮﻑ، ﻋﺬﺍﺏِ ﺩﯾﺪ، ﻃﻠﻮﻉِ ﺍﺷﮏ، ﺭﺧﺖِ ﺷﺐ، ﺧﯿﻤﮧ ﺟﺎﮞ، ﻣﻮﺝِ ﺍﺩﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺍﺕِ ﻓﮑﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﻧﮯ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻤﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ. ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺗﻮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺟﮩﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﺍنھوں ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻒ ﻟﯿﻠٰﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺗﮏ ﮨﯽ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍنھوں ﻧﮯ دنیا ﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ جنھیں ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﮑﺮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﺤﻮﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ، ﺭﻭﯾﮯ، ﻭاقعۂ ﮐﺮﺑﻼ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺯﻝ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﻣﻌﺮﮐﮧ ﺣﻖ ﻭ ﺑﺎﻃﻞ ﮨﮯ۔

ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺮﻭﺝ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﺎﻟﻌﺪﻡ تنظیموں اور دشمنان اہل بیت اطہار ع کی تنظیموں ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺫﯾﻠﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺑﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺣﻖ ﮔﻮ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﺭ ﮨﮯ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺩﻣﮑﺘﺎ ﭼﺮﺍﻍ 15 ﺟﻨﻮﺭﯼ 1996ﺀ ﮐﻮ ﻣﻮﻥ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ ﺳﮯ ﺑﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔ ﭘﻮﺳﭧ ﻣﺎﺭﭨﻢ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 45 ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﻣﺤﺴﻦؔ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯿﮟ۔

ﯾﮧ ﺟﺎﮞ ﮔﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺭُﺕ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ
ﺳﺮ ﺳﻨﺎﮞ، ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺮ ﺳﺠﺎﺅ ! ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮ

ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﻗﺒﻞ ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻻﺯﻭﺍﻝ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ:

ﺳﻔﺮ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﮐﭧ ﮔﯿﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﺮﭼﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﭧ ﮔﯿﺎ

ﻣﺤﺴﻦؔ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﮩﻠﻮ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍہل بیت ﻣﺤﻤﺪؐ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺑﻨﯽ۔

ﻣﺠﻤﻮعۂ ﮐﻼﻡ:
ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮐﻼﻡ ﭼﮭﭗ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﮨﯿﮟ

ﺑﻨﺪِ ﻗﺒﺎ۔ 1969 ﺀ
ﺑﺮﮒِ ﺻﺤﺮﺍ۔ 1978 ﺀ
ﺭﯾﺰﮦ ﺣﺮﻑ۔ 1985 ﺀ
ﻋﺬﺍﺏِ ﺩﯾﺪ۔ 1990 ﺀ
ﻃﻠﻮﻉِ ﺍﺷﮏ۔ 1992 ﺀ
ﺭﺧﺖِ ﺷﺐ۔ 1994 ﺀ
ﺧﯿﻤﮧ ﺟﺎﮞ۔ 1996 ﺀ
ﻣﻮﺝِ ﺍﺩﺭﺍﮎ
ﻓﺮﺍﺕِ ﻓﮑﺮ

1994 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﺍنھیں ﺻﺪﺍﺭﺗﯽ ﺗﻤﻐﺎ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺣﺴﻦ ﮐﺎﺭﮐﺮﺩﮔﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ

عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
۔۔۔
ﭘﮭﺮ ﮐﻮﻥ ﺑﮭﻼ ﺩﺍﺩ ﺗﺒﺴﻢ ﺍنھیں ﺩﮮ ﮔﺎ
ﺭﻭﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍ ﮐﺮ ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
۔۔۔
ﺍﺟﺎﮌ ﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﻼﺑﯽ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﺗﺮﯼ ﺩﯾﺪ ﺳﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮ ﮐﮯ
۔۔۔
ﺟﻮ ﺗﺮﯼ ﺯﻟﻒ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﻮﮞ ﻣﺮﮮ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺩﺏ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ
۔۔۔
سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن
کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
۔۔۔

غزل
فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا

دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا

تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا

گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا

محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا

غزل
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے

کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے

سنا ھے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ہے چراغوں کو بے آبرو کر کے

زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے

نظم
میں نے اِس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سِیپ کے دل میں اُترے
جیسے خوشبو کو ہِوا رنگ سے ہٹ کر چاہے

جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غُنچے کھِلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹُوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں

میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے

خواہشِ دید کا موسم کبھی دُھندلا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے

میں نے چاہا کہ تیرے حُسن کی گُلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ میرے فن کے گُلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گُلابوں سے مہکتی جائے

طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں میں تکلّم تیرا
رقص کرتا رہے بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسّم تیرا

تُو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کِرن
میری بُجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تُو بھی
چارۂ زخمِ غمِ دیدۂ تر کر نہ سکی

تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے

تُو کہ سِیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہِجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے

تُو نے اُس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں

اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھُلیں گی اپنی
یاد آئے گا تیری دید کا منظر جاناں

مجھ سے مانگے گا تِرے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہِجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں

یوں مِرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں

غزل
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں

پھر کون بھلا داد تبسم انھیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں

خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں

اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں

میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں

شاہکار اور لازوال کلام  ۔ ۔ ۔ ۔ محسن نقوی

لٹ کے آباد ہے جو اب تک تو وہ گھر کس کا ہے
سب اونچا ہے جو کٹ کر بھی سر کس کا ہے

ظلم شبیؑر کی ھبیت سے نہ لرزے کیونکر
کس نبیؐ ہے نواسہ یہ پسر کس کا ہے

جس کو دستک سے بھی پہلے ملے خیرات نجات
کاش سوچے کبھی دنیا کہ وہ در کس کا ہے۔

کس نے مقتل کی زمیں چھو کے معلیٰ کر دی
پوچھنا کربٌلا سے یہ ہنر کس کا ہے

کس کی ہجرت کے تسلسل سے شریعت ہے رواں
کافلہ آج تلک شہر بدر کس کا ہے

تخت والوں نے معرخ بھی خریدے ہوں گے
لیکن ذکر آج بھی دنیا میں شام و سحر کس کا ہے

لاش اکبرؑ پے قضا سوچ رہی ہے اب تک
جس میں ٹوٹی ہے یہ برچھی وہ جگر کس کا ہے

کون ہر شام غم شے میں لہو روتا ہے
آسمانوں سے ادھر دیدہ تر کس کا ہے

ہاتھ اٹھاتا ہوں ایوان صدر کانپتے ہیں
سوچتا ہوں میرے ماتم میں اثر کس کا ہے

جس کی حد ملتی ہے جنت کی حدوں سے محسن
جزو حسینؑ ابن علیؑ اور سفر کس کا ہے۔

کہتے ہیں بڑے فخر سے ہم غم نہیں کرتے
ماتم کی صدا سنتے ہیں ماتم نہیں کرتے

اپنا کوئی مرتا ہے تو روتے ہو تڑپ کے
پر سبطِ پیمبر کا کھبی غم نہیں کرتے

وہ لوگ بھلا کیا سمجھیں گے رمز شہادت
جو عید تو کرتے ہیں ماتم نہیں کرتے

کیوں آپ کا دل جلتا ہے کیوں جلتا ہے سینہ
ہم آپ کے سینے پے تو ماتم نہیں کرتے

گریا کیا یعقوب نے انہیں بھی تو ٹوکو
یوسف ابھی زندہ ہے یوں غم نہیں کرتے

حق بات ہے بغض علی کا ہی ہے چکر
تم اس لیے شبیر کا ماتم نہیں کرتے

ہمت ہے محشر میں پیمبر سے یہ کہنا
ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے

محسن یہ مقبول روایت ہے جہاں میں
قاتل کھبی مقتول کا ماتم نہیں کرتے

محسن نقوی

ھم نے غزلوں میں__تمہیں ایسے_پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی__قسمت کا__ستارہ محسن

اب تو خود کو بھی_نکھارا نہیں جاتا__ھم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ_تم کو بھی__سنوارا محسن

اپنے خوابوں کو__اندھیروں کے__حوالے کرکے
ھم نے صدقہ__تری آنکھوں کا___اتارا محسن

ھم تو_رخصت کی گھڑی تک بھینہیں سمجھے تھے
سانس دیتی رہی__ہجرت کا___اشارہ محسن

ھم کو معلوم ھے___اب لوٹ کے آنا__تیرا
نہیں ممکن یہ_مگر_پھر بھی_خدارا محسن

محسن نقوی۔

اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام

مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام

بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

محسن نقوی

غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی

کس نے سنگِ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اِک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر!

تونے اپنی زلف کے ساۓ میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملیں ہیں جراَت اظہار پر

شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازا لہو چمکے نئی تلوار پر

سنگ دِل احباب کے دامن میں رسوائ کے پھول
میں نے دیکھا ہے نیا منظر فرازِ دار پر

اب کوئی تہمت بھی وجہ کربِ رسوائ نہیں
زندگی اِک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر

میں سرِ مقتل حدیثِ زندگی کہتا رہا
انگلیاں اٹھتی رہیں محسن مرے کردار پر

سید محسن نقوی

اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام

مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام

بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

محسن نقوی

سیدی جانی محسن نقوی کے شعری مجموعے طلوع اشک کی تقریب رونماٸی کا انعقاد دو مرتبہ ملتوی ہوا ۔ موخر کرنے کا سبب دختر مشرق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی مصروفیات تھا۔ آخر کار 27.نومبر1992 کی تاریخ طے پاٸی اور جب جانی سیدی محسن نقوی تقریب کا دعوت نامہ دینے کےلیے آٸے تو اس سے قبل کہ وہ دعوت نامہ دے پاتے ہم نے اپنے ولیمے کا دعوت نامہ انہیں پیش کردیا ۔ ولیمے کا دعوت نامہ دیکھ کر جانی سیدی محسن نقوی نے فرمایا کہ میں اس وقت طلوع اشک کی تقریب کا دعوت نامہ پیش کرنے آیا تھا اور یہ کہہ کر انہوں نے دعوت نامہ عطا فرماتے ہوٸے کہا کہ دیکھتا ہوں کہ کسی طرح یہ تقریب رونماٸے دو چار دن آگے پیچھے ہوجاٸے ۔ میں نے کہا یاسیدی نہیں نہیں ہرگز نہیں اگر آپ ولیمے میں نہ بھی آ پاٸے تو کوٸی بات نہیں ہم بعدازاں ایک اور شادی اور ایک اور ولیمے کا اہتمام کرلیں گے۔ لیکن تقریب رونماٸی سے فراغت پاکر سیدی محسن کچھ دیر  کےلیے ہی سہی مگر آٸے ضرور تھے ۔

والد گرامی سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی علالت کا معلوم ہوتے ہی عیادت کےلیے آنے والوں میں ایک دوسرے پر سبقت لےجانے والوں میں احمد ندیم قاسمی ۔ ڈاکٹر وزیرآغا ۔ محترمہ صدیقہ بیگم۔ اشفاق احمد ۔ الطاف فاطمہ ۔اجمل نیازی اور سیدی محسن نقوی سرفہرست رہتے۔
جب حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب اور ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کے توسط سے سیدی محسن نقوی کو علم ہوا سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو رب العزت نے اہل بیت اطہار ع کے صدقے میں پوتی سے نوازا ہے تو سیدی محسن نقوی بلاتاخیر بلکہ یوں سمجھیے کہ احمد ندیم قاسمی اور اجمل نیازی کی آمد کے آدھے گھنٹے بعد پہنچ گٸے ۔ جب سیدی محسن تشریف لاٸے تو احمد ندیم قاسمی ہماری دختر نیک اختر سیدہ ہانی ظفر کے کان میں اذان دے رہے تھے۔ جب وہ اذان دے چکے تو جانی محسن نقوی نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے کہا کہ میری خواہش تھی کہ میں بھی بچی کے کان میں اذان دوں لیکن آپ کے بعد کچھ نامناسب سامحسوس ہورہا ہے اس پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ نہیں نہیں اس میں کیا نامناسب بات ہے ۔میں جب آیا تھا تو اجمل نیازی ہانی ظفر کے کان میں اذان دے رہے تھے لیکن میں نے اپنا فرض اور حق جانا اور میں نے بھی اذان دی ۔ بالکل آپ بھی اذان دیجے اس کے بعد سیدی محسن نقوی نے بھی سیدہ ہانی ظفر کے کان میں اذان دی۔

ہمارا دل اور ہمارے دل کی دھڑکن ۔ ہمارے    شہزادے  ۔ راج دلار ے   عجیب اتفاق ہے کہ انہیں ہماری اور ہمیں ان کی محبت و چاہت ورثے میں ملی ہے جی ہاں جناب اسد  محسن نقوی اور جناب عقیل محسن نقوی صاحب ہمارے بہت پیارے عزیز بھائی دوست جان و جگر جناب سیدی محسن نقوی کے فرزندان اور محسن نقوی شہید کے حقیقی علمی و ادبی وارث ہیں۔ دونوں فرزندان کی اپنے پیارے ابّو جان سے اس قدر مشابہت ہے کہ انہیں اپنے سامنے پاکر  بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ یہ فرزندان حماد اہل بیت اطہار ع ۔ یہی نہیں بلکہ ان کا اندازِ تکلّم بھی ہو بہو سیدی محسن نقوی جیسا ہے۔ کیا شان ہے خالق و مالک کی کہ وہ جس مجلس یا جس محفل میں ہوتے ہیں وہاں محسن نقوی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ برادرِ محترم اسد محسن نقوی  اور برادرِ محترم عقیل محسن نقوی نے اپنے پیارے ابو جان کی شہادت کے بعد ہم سے سید فخرالدین بلے فیملی سے محبت اور تعلق داری میں کوٸی کمی نہیں آنے دی بلکہ انہوں نے تو اس تعلق اور اس بندھن کو نسل در نسل لاجواب اور مستحکم تر بنانے میں کبھی کوٸی کمی یا کوتاہی نہیں برتی۔ حماد اہل بیت اطہار ع سیدی محسن نقوی کی شہادت کے ساتھ ہی سید فخرالدین بلے فیملی نے لاہور سے ترک سکونت اختیار کی اور لاہور کو خیرباد کہہ کر ملتان منتقل ہوگٸے۔ ابھی سیدی محسن نقوی کی شہادت کو چند برس ہی ہوٸے ہونگے کہ کہیں برادرم عقیل محسن نقوی کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی علالت کا علم ہوا تو وہ علامہ ناصر عباس شہید اور پروفیسر شاہد عباس کے ہمراہ والد گرامی کی عیادت کےلیے تشریف لاٸےتھے۔  

الوداع الوداع حماد اہل بیت اطہار ع یا سیدی جانی محسن نقوی الوداع ہم نے آپ کو اللہ رب العزت اور اہل بیت اطہار ع کی سپرد کیا
ہماری آخری ملاقات بھی بس اسی روز ہوئی تھی اور ہم نے الصبح بوقت ِ اذانِ فجر ان کو رخصت کیا الوداع کہا لیکن
جب انہوں نے خود ہی اس آخری ملاقات کو یادگار بنادیا تو ہم کیا کرتے ۔ وہ رخصت ہوئے اور پانچ سات منٹ بعد پلٹ کر آئے اور کہا ایک خاص اور اہم بات یاد آگئی وہی کہنے کے لیے پلٹ کر آیا ہوں ۔ میں نے عرض کیا حکم فرمائیں تو جناب سیٌدی محسن نقوی نے اپنا یہ شعر سنایا

بھول جانے کی عمر بیت گئی
آٶ اک دوسرے کو یاد کریں

ہم نے بھی جوابا“ بس اتنا ہی عرض کیا کہ

بات کو غور سے سنو میری
کاش ! آئندہ کوئی بات نہ ہو

سیٌدی محسن نقوی نے یہ شعر سن کر مجھے گلے لگایا
میرا ماتھا چوما اور کہا اللہ و مولا آباد رکھیں اور غمِ حسین کے سوا آپ کو کوئی غم نہ دے ۔
اور پھر ان کی کیفیت بہت مختلف تھی عجیب تھی وہ جانا بھی چاہ رہے تھے ان کا دل اس ملاقات کو مذید طویل کرنے کی خواہش کر رہاتھا۔ میں نے بہت عاجزی سے کہا بھائی مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپ یوں غریب خانے کے باہر کھڑے ہیں آئیے اندر چل کر بیٹھتے ہیں تو سیٌدی محسن نے کہا کہ
تمام رات گزاری ہے اس حرم میں مگر
اور یہ کہہ کر پھر کہا آئیے یار کہیں چل کر چائے پی کر آتے ہیں میں نے کہا کہ ہمارے والد نے کسی بات پر روک ٹوک نہیں کی لیکن کوئی اپنا کوئی مہمان گھر سے کھانے پینے باہر جائے Just for Enjoyment الگ بات ہے لیکن اس بات پر مجھے ان سے ڈانٹ پڑے گی خیر وہ وہیں باہر کھڑے کھڑے کھلی ہوا و فضا میں رہنا چاہ رہے تھے لہذہ میں نے گھر میں چائے ناشتے کا اہتمام کرنے کو کہا اور مسلسل ان سے باتیں کرتا رہا اور گفتگو میں آنؔس معین کے اشعار کو شامل کرتے رہے ۔ ہم نے وہیں باہر ہی ان ی گاڑی میں بیٹھ کر چائے ناشتہ بھگتایا اور تقریبا“ ڈیڑھ گھنٹے بعد آنؔس معین کی آخری غزل کا یہ مصرعہ پڑھا

”خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور“

اور کہا سیٌدی جانی اب چلتا ہوں ذرا دو گھنٹے سو لوں آج دوپہر بارہ ساڑھے بارہ کا وقت دے رکھا ہے کسی کو اور یہ کہہ کر وہ ہمیں اپنا آخری دیدار کروا کر رخصت ہوگئے ۔
پندرہ جنوری انیس سو چھیانوے کی دوپہر لگ بھگ ایک بجے کے قریب جانی سیدی محسن نقوی شاہ کا فون آیا انہوں نے فرمایا جلدی ریڈی ہوجاٸیں میں آپ کو پک کرنے آرہا ہوں کہیں جانا آپ کو لے کر لیکن ابھی یہ نہیں پوچھیے گا کہ کہاں جانا ہے بس بیس پچیس منٹ میں پہنچ رہا ہوں ۔
ہم نے سیدی کے حکم کی تعمیل میں تیاری کی اور ان کی آمد کا انتظار کرنے لگے ۔ ڈیڈھ سے دو اور سوا دو اور ڈھاٸی بجنے کو آٸے لیکن سیدی جا نی محسن ہی نہ آٸے اور ہم نے متعدد بار ان کے کِسا انٹر نیشنل کے نمبر پر اور ان کے موباٸل  پر فون کیا لیکن کوٸی جواب نہ آیا تو آخر کار ہم نے اختر بھاٸی کے نمبر پر فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کہاں ہیں سیدی تو ہمیں جواب میں رونے اور دہاڑیں مار مار کر رونے کی آوازیں سناٸی دیں

جاں محمد ص کے گھرانے پہ لٹاٸے ہوٸے ہیں
ہم درِ پنجتن پہ سر کو جھکاٸے ہوٸے ہیں

کاٹ تو ڈالا تھا سارا ہی گھرانہ اور اب
نام لیواٶں کی بھی جان کو آٸے ہوٸے ہیں
(ظفر معین بلے جعفری)

سید فخرالدین بلے فیملی اور  محسن نقوی ، داستانِ رفاقت
ولادت : 5۔ مٸی 1947 . ڈیرہ غازی خان  شہادت : 15۔ جنوری 1996 . لاہور
تحریر و تحقیق اور انتخاب کلام : : ظفر معین بلے جعفری

Related posts

Leave a Comment