حمدیہ قصیدہ ۔۔۔ قاضی حبیب الرحمٰن

زوروں پر ہے چشمۂ نور
اپنا ظرف، اپنا مَقدور

شمسِ حقیقت کے ہوتے
سارے وہم و گماں کا فور!

ایک، ہوا کی آہٹ پر
ناچ اُٹھا شہرِ مَزموَر!

کسی خیال کی لذّت میں
رہتا ہے غم بھی مَسرور

ایک خلا کی نِسبت سے
دل ہے خلوت سے معمور

جیسے ہے ہر چیز … یہاں
اپنے نشے میں مخمور

سو بھی کم کم کھلتا ہوں
حسبِ اِسقعدادِ ظُہور

خود سے چُھپتا پھِرتا ہوں
(اپنے انور اک مفرور)

پردے کا ہے سارا کھیل
ورنہ۔ مَیں کیا، کون حضور!

اک دریا کی لہریں ہیں
بُلّہا، سرمد تے منصور!

ایک الف بس ہے۔ آگے
اپنا اپنا، فہم شَعور!

مَیں نے سورج دیکھا ہے
ذرّے ذرّے میں مَستور

موجِ ہوا کے رستے کا
اک ریزہ ہے کوہِ طور

دل میں اُڑتے پھِرتے ہیں
ہر سُو رنگ برنگ طَیور

رگ رگ میں جوں موجِ شباب
اپنی قوّت میں بھَرپور

اُڑتی ہوئی تانوں کی دھنک
بہتی ہوئی ندیوں کا سُرور

خوشبو کے جھونکے دَمِ صبح
جیسے چھلکے مَے طہور!

صحرا صحرا، اُڑتی خاک
چمن چمن رنگوں کا وُفور!

پانی کے اپنے نیرنگ
مٹیّ کا اپنا منشور!

دیکھ بِساطِ آب و ہوا
اَے میرے قلبِ رنجور!

کیا کیا دَمکے۔ خواب خیال!
کیا کیا جھمکے۔ محل قصور!

کیا روی، کیا مستوری!
(جو جس امر پہ ہے مامور)

آج بھی ہیں بَیدخت پرست
چاہِ بابِل کے مسحور

جاری ہے رقصِ ناہید!
زندہ ہے شہدِ محجور!

منزلِ وصل میں بھی اکثر
للچاتی ہے رہِ مہجور

اک نادیدہ رستہ ہے
ہر دل منزل میں مستور

ہر دم کوئی کہتا ہے:
کوئی پسِ پردہ ہے ضرور

اے دل، اَے سِتر الا سرار!
اَے کہ وَرائے خدود و ثغور!

(یعنی - جُملہ ارض و سرار)
(یعنی - جُملہ عصور و دہور)

توُ- لَا مَتَناہی ساگر!
آب سوار سے کیا ہوا عبور!

کِلکِ ازل سے پکی تھیں
ٹیٹرحی میٹرحی چند سُطور!

ایک تعلق کی خاطر
دل کو ہر شدّت مَنظور!

چاروں اَور کُروں کا جال
بیچ میں اک دَھڑکن محصور!

بھاگ رہا ہے یوں ہر شخص
جیسے سُرعتِ یومِ نَشور!

وقت کے بہتے دَھارے میں
کون سکندر، کیا فَغفُور!

خاک میں مل کر خاک ہوئے
کیا گمنام اور کیا مشہور!

دیکھ رہا ہوں، آنکھوں سے
(اگلے صحیفوں میں مسطور)

موجِ تشنہ لبی- سراب
سہوِ نظر- نزدیک و دور

قریہ قریہ- نافذ ہے
ازل سے پتھّر کا دستور!

سورج، چاند، ستارے، حبیبؔ
سب کے سب غم کے مزدور!

نظم کرے کیا کوئی قلم
دل کا احوالِ مَنشور!

دَھڑکن دَھڑکن رہتا ہے
میرا دلِ تنہا محشور!

حرفِ مقدّر ہوں گویا:
(وہ جو کہیں نہیں مَذکور)

مانا میں ہی ظلوم و جہول!
مانا میں ہی غرور و کفور!

مالکِ نفسِ اَمّارہ!
جَفَّ الْقَلَم بھی میرا قصور!

اپنی مَشیّت، تو جانے!
(مَیں ہوں اور فہم مقصور)

کوئی خلیلؑ آسا بَرہان!
پَے تسکینِ دلِ مَغرور!

(حق ہے بَس اک حُسنِ ازل)
باقی کم نظری کا فتور!

اک رشتے میں سرشتہ ہیں
خیر و شر کے جملہ اَمور!

دال اس پر شعرِ عطّار!
(قصّہ صنعاں، عِطرِ عُطور)

چوں آید سُلطانِ عشق
ہیچ نَمانَد صبرِ صَبور!

لاکھ ہو کوئی خود مختار
اپنی فطرت سے محیور!

حَد سے باہر بھی بے حال!
حَد کے اندر بھی معذور!

اس دل کا کچھ ٹھیک نہیں
ایک نظرِ اور چَکنا چور!

عمرِ دَوام اک لمحہ رقص!
عبث شُمارِ سِنِین و شہور!

حاصل ہے اک زندہ شعر!
حرفِ غلط ارکان، بُحور!

اک دو سطرِ سِحر طراز!
(ہم رنگِ آہنگِ زَبور)

(اَز پَیِ یک نِگہِ ناگاہ)
کھڑے ہیں قرنوں کے مقہور!

اَے میرے دل سے نزدیک!
اَے میری آنکھوں سے دور!

Related posts

Leave a Comment