نہ دیکھنا تھا جو پیہم دکھائی دیتا ہے
عجیب خوف کا عالم دکھائی دیتا ہے
خرابی تیری نظر میں نہیں ہے ،دل میں ہے
اسی لیے تو تجھے کم دکھائی دیتا ہے
یہ اب جو بادِ صبا بھی سموم جیسی ہے
فلک زمین سے برہم دکھائی دیتا ہے
پتنگیں اڑنے لگی ہیں چھتوں پہ چاروں طرف
بہار آنے کا موسم دکھائی دیتا ہے
سبھی کی آنکھ نہیں ہوتی دیکھنے والی
کسی کسی کو مرا غم دکھائی دیتا ہے
گزر گیا ہے چمن سے ابھی ابھی سیّد
کہ برگ و بار پہ کچھ نم دکھائی دیتا ہے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...