نہ دیکھنا تھا جو پیہم دکھائی دیتا ہے
عجیب خوف کا عالم دکھائی دیتا ہے
خرابی تیری نظر میں نہیں ہے ،دل میں ہے
اسی لیے تو تجھے کم دکھائی دیتا ہے
یہ اب جو بادِ صبا بھی سموم جیسی ہے
فلک زمین سے برہم دکھائی دیتا ہے
پتنگیں اڑنے لگی ہیں چھتوں پہ چاروں طرف
بہار آنے کا موسم دکھائی دیتا ہے
سبھی کی آنکھ نہیں ہوتی دیکھنے والی
کسی کسی کو مرا غم دکھائی دیتا ہے
گزر گیا ہے چمن سے ابھی ابھی سیّد
کہ برگ و بار پہ کچھ نم دکھائی دیتا ہے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...