منظور ثاقب ۔۔۔ گرا ہے جو پرندہ آشیاں سے

گرا ہے جو پرندہ آشیاں سے اسے لڑنا ہے اب سارے جہاں سے ضرور اک فائدہ ہوتا ہے آخر زیاں اتنا نہیں ہوتا زیاں سے جو ہر لمحے نیا لمحہ تراشے وہی واقف ہے رازِ کن فکاں سے اگر شامل نہیں فکر و تدبر تو پھر بے زار ہوں سِحرِ بیاں سے جو چلاتا ہے اس کا ڈر نہیں ہے بہت ڈرتا ہوں لیکن بے زباں سے وہی اک بات تھی محفوظ ثاقب جو بچ کر رہ گئی تھی راز داں سے

Read More

منظور ثاقب ۔۔۔ اب بھی آنکھیں چار کر سکتا ہوں میں

اب بھی آنکھیں چار کر سکتا ہوں میں یعنی اب بھی پیار کر سکتا ہوں میں شرط بس اک ہے کہانی ہو تری کوئی بھی کردار کر سکتا ہوں میں اٹھ رہے ذہن میں تیکھے سوال آپ کو لاچار کر سکتا ہوں میں کچھ نہ کچھ دانست ہے تقویم کی کل کا بھی دیدار کر سکتا ہوں میں امن کا داعی ہوں ورنہ یہ نگر کابل و قندھار کر سکتا ہوں میں دوستوں کو عیب جوئی سے فقط لمحے میں اغیار کر سکتا ہوں میں

Read More