منظور ثاقب ۔۔۔ اب بھی آنکھیں چار کر سکتا ہوں میں

اب بھی آنکھیں چار کر سکتا ہوں میں
یعنی اب بھی پیار کر سکتا ہوں میں

شرط بس اک ہے کہانی ہو تری
کوئی بھی کردار کر سکتا ہوں میں

اٹھ رہے ذہن میں تیکھے سوال
آپ کو لاچار کر سکتا ہوں میں

کچھ نہ کچھ دانست ہے تقویم کی
کل کا بھی دیدار کر سکتا ہوں میں

امن کا داعی ہوں ورنہ یہ نگر
کابل و قندھار کر سکتا ہوں میں

دوستوں کو عیب جوئی سے فقط
لمحے میں اغیار کر سکتا ہوں میں

Related posts

Leave a Comment