اکمل حنیف ۔۔۔ بظاہر جو اکیلا ہے

بظاہر جو اکیلا ہے
وہ اپنے ساتھ بیٹھا ہے

مجھے خاموش رہنا ہے
کہانی کار کہتا ہے

کوئی رونے لگا مجھ میں
یہ کیسا خواب دیکھا ہے

نظر انداز کرنا بھی
سزا دینے کے جیسا ہے

مقابل بیٹھنا اْس کا
مجھے تسلیم کرنا ہے

ترے بن چار سو صحرا
ترے بن آنکھ دریا ہے

تمھارے مسکرانے سے
ہمارا حال اچھا ہے

کہا اُس نے مجھے سن کر
یہ اچھے شعر کہتا ہے

سبھی کردار ہیں اکمل
یہ دنیا اک تماشا ہے

Related posts

Leave a Comment