سرور حسین نقشبندی ۔۔۔ گستاخی

گستاخی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے ذہنوں پہ بت پرستی کے اب بھی تالے پڑے ہوئے ہیں
تمہیں تمہاری ہی بے یقینی نے ڈس لیا ہے
جکڑ لیا ہے تمہیں تمہاری ہی بے حسی نے
خدا سے دوری نے تم سے بینائی چھین لی ہے
دلوں پہ غفلت کی سرخ مہریں لگی ہوئی ہیں
اسی لئے تو یہ کر رہے ہو زباں درازی

تمہارے اندر جو بغضِ احمد کے تیز شعلے بھڑک رہے ہیں
جو ان سے نفرت کا گرم لاوہ دہک رہا ہے
اسی میں جلنا ہے تم نے آخر

نہ ان کا رتبہ گھٹا سکو گے
نہ ان کی عظمت پہ حرف کوئی
تمہاری باتوں سے آنے والا
نہ ان کی رفعت کے آسمانوں کو چھو سکو گے
تمہاری وقعت تو ایسے کیڑے سی بھی نہیں ہے
جو گندگی میں پڑا ہوا ہے

تمہیں یہ اچھی طرح پتاہے
ہمیں وہ جاں سے عزیز تر ہیں
جو ان کے بارے میں ایک بھی حرف بد کہے گا
وہ کیسے دنیا میں پھر جیے گا
سو تم بھی لازم ہے مرتے دم تک
حصار مانگو گی عافیت کا
سکون کو ڈھونڈھتی پھرو گی
مگر نہیں اب یہ ملنے والا

یہ بات اپنے دلوں کے مندر پہ نقش کر لو
اور آنے والی تمام نسلوں کو بھی بتا دو
ہر ایک ظلم و ستم کو گرچہ
ہم اپنی جاں پر سہار لیں گے
معاف کر دیں گے چھوڑ دیں گے

مگر یہ ناموسِ مصطفیٰ ہے
یہاں معافی نہیں ملے گی
یہاں معافی نہیں ملے گی

Related posts

Leave a Comment