فیصل زمان چشتی ۔۔۔ مفلسی کی نہیں تکلیف نہ بیماری کی

مفلسی کی نہیں تکلیف نہ بیماری کی
میرا دکھ یہ ہے کہ بچوں سے اداکاری کی

دکھ تہِ تیغ کیے ہجر کو بخشی دھڑکن
اپنی جاگیر میں ہم نے بڑی سرداری کی

آستینوں میں لیے بیٹھی ہیں شاخیں خنجر
کس نے دھرتی پہ ہے نفرت کی شجرکاری کی

سکھ کو پانے کے لئے پھرتا تھا مارا مارا
پھر بھی تجھ درد کی اس دل نے خریداری کی

خواب دیکھے بھی نہیں رنگ بھی آنکھوں سے گئے
دلِ معصوم نے یہ کیسی سمجھداری کی

نہ مرا وصل سلامت نہ رہا ہجر میں دم
دنیا والو کوئی حد ہوتی ہے لاچاری کی

خواب آنکھوں میں رکھے دیپ سرِ بام جلے
یوں شبِ ہجر بسر کرنے کی تیاری کی

درد سہنے سے ہی احساس توانا ہو گا
بات ہے حوصلے کی اور سمجھداری کی

پھول بھیجے ہیں اسی شخص کو پھر بھی فیصل
جس نے ہر لمحہ مخالف کی طرفداری کی

Related posts

Leave a Comment