سحر تاب رومانی … دشت کے آس پاس کاٹی ہے

دشت کے آس پاس کاٹی ہےزندگی بد حواس کاٹی ہے پھر مجھے کر دیا ہے اُس نے ردپھر مری التماس کاٹی ہے آپ نے بات ہی نہیں کاٹیاک زبانِ سپاس کاٹی ہے یہ جو لہجہ گداز ہے میراتلخیوں سے مٹھاس کاٹی ہے تیرے دریا یونہی نہیں سیرابمیرے صحرا نے پیاس کاٹی ہے بات کرتا ہے اِس طرح جیسےعمر بھر ہم نے گھاس کاٹی ہے ہم نے کچھ بھی نہیں کیا ہے سحرصرف اپنی اساس کاٹی ہے

Read More