فیصل عظیم ۔۔۔ اُٹھائے پھرتے ہو شباب کا بوجھ

اُٹھائے پھرتے ہو شباب کا بوجھاور اُس پہ مستقل عذاب کا بوجھپہاڑ  سر  پہ  کم  نہیں ، لیکنیہ آسمان جیسے خواب کا بوجھپلا دو  گھول  کر کوئی  تعویزکہاں ہم اور کہاں کتاب کا بوجھیہ پوری قوم جھُک  کے چلتی  ہےہے سر پہ کس قدر خضاب کا بوجھاُٹھائے  یا  بکھر کے  رہ  جائے ؟زباں پہ ہےکچھ اضطراب کا بوجھتمھاری بدگمانیوں  سے  سِوادلِ حزیں، وفا نصاب کا بوجھبناؤ  مت  خلوص   کی   تصویرگراں ہےآنکھ پر سراب کا بوجھتُو شکوہ سنج  ہے تو  کان  بھی رکھمیں پھینک ہی نہ دوں جواب کا بوجھشِکن  صدا …

Read More