فیصل عظیم ۔۔۔ اُٹھائے پھرتے ہو شباب کا بوجھ

اُٹھائے پھرتے ہو شباب کا بوجھ
اور اُس پہ مستقل عذاب کا بوجھ

پہاڑ  سر  پہ  کم  نہیں ، لیکن
یہ آسمان جیسے خواب کا بوجھ

پلا دو  گھول  کر کوئی  تعویز
کہاں ہم اور کہاں کتاب کا بوجھ

یہ پوری قوم جھُک  کے چلتی  ہے
ہے سر پہ کس قدر خضاب کا بوجھ

اُٹھائے  یا  بکھر کے  رہ  جائے ؟
زباں پہ ہےکچھ اضطراب کا بوجھ

تمھاری بدگمانیوں  سے  سِوا
دلِ حزیں، وفا نصاب کا بوجھ

بناؤ  مت  خلوص   کی   تصویر
گراں ہےآنکھ پر سراب کا بوجھ

تُو شکوہ سنج  ہے تو  کان  بھی رکھ
میں پھینک ہی نہ دوں جواب کا بوجھ

شِکن  صدا  میں  بھی  نمایاں  تھی
اور اُس پہ آنکھ کے شِہاب کا بوجھ

اک   آسمانِ   شیشۂ   شفّاف  !
اُٹھائےگرد کےسحاب کا بوجھ

قلم  سے کس  کا خوں  ٹپکتا  ہے
ہے آنکھ پر یہ کس گلاب کا بوجھ

اکیلا  میں  نہیں   ہوں  گٹھری   میں
ہےکچھ تمھارے بھی حساب کا بوجھ

محبّتوں سے  اب  چڑاتا  ہے
یہ گرد رنگ ماہتاب کا بوجھ

Related posts

Leave a Comment