فیصل عظیم ۔۔۔ پیاس کی دیوی

پیاس کی دیوی
______

اشاروں کی اک رانی، سر کو ہلا کر
اور آنکھوں کو مٹکا کے بوتل دکھا کر
لُبھاتی ہے سو طرح سے بار بار
میں ہر بار کہتا ہوں، میرے لیے تو نہیں، یہ
تو اک جھٹکے سے کارک اُڑا کر، ادا سے
وہ بوتل سے اک دائرہ میری آنکھوں کے آگے بنا کر
مجھے پھر دکھاتی ہے
مگر میں اسے بےتاثر نگاہوں سے تکتا ہوں

وہ مشروب شیشے میں بھرتی ہے
اور آواز اُس کی سنا کر
مجھے دیکھتی ہے، کن انکھیوں سے، گویا
اس آواز پر اُس کے شیشے میں ڈھل جاؤں گا
میں کہتا ہوں قُلقُل ہے اچھی، پر ایسا بھی کیا!
تو وہ چوڑے اور گہرے ساغر میں تھوڑی گرا کر
مرے منہ کے نزدیک لا کر، ہلا کر سُنگھاتی ہے، مشروب
جو ساغر کناروں کو چھوتا ہوا سا
بھنور رقص کرتا ہوا جھومتا ہے
بخارات اُڑتے، رِجھاتے ہیں، پھر بھی
رجھاتے کہاں ہیں!

کبھی رنگ، خوش رنگ مجھ کو دکھاتی ہے
اور اپنے لبوں پر
کبھی ذائقوں کے تصوّر میں ڈوبی زباں پھیرتی ہے
مگر، بت بنا میں یہ سب دیکھتا ہوں
یہ مشروب میں پینا کیوں چاہوں گا!
میں کہتا ہوں ’’کیوں تم کو لگتا ہے میں پی ہی لوں گا‘‘
سنبھلتا ہوا دیکھ کر ہنس کے کہتی ہے ’’چکھ کے تو دیکھو۔
اسے چکھّو یا تشنگی ہی کو چکھّو!‘‘
’’مگر تشنگی ہی تو میں پی چکا ہوں
تو پھر یہ بھلا کیوں؟‘‘ میں کہتا ہوں اس سے
تو وہ سادہ، رنگین، تلخ اور شیریں، بھرے، خالی، سب!
پیالے، شرابیں، گلاس اور شربت
کئی بوتلیں، اور پانی وغیرہ سجا دیتی ہے
میں کہتا ہوں، سمجھو
میں پھر، اور پھر، اور پھر اُس سے کہتا ہوں، سمجھو!
یہ سمجھو۔۔۔ مجھے پیاس بالکل نہیں ہے۔

Related posts

Leave a Comment