اسحاق وردگ ۔۔۔ تیرا دربار ترا جاہ و حشم اور طرف

تیرا دربار ترا جاہ و حشم اور طرف
اور درویش کا اٹھتا ہے قدم اور طرف

وقت نے گھیر کے اب پھینک دیا اس جانب
جو سمجھتے تھے کہ ہے راہِ عدم اور طرف

شہر کا شہر بہکتا ہوا جاتا ہے کہاں؟
دھیان ہے اور طرف اور قدم اور طرف

منطقی ربط نہیں ذہن کے کرداروں میں
دل نے رکھا ہے کہانی کا بھرم اور طرف

لفظ معنی کے طلسمات سے خالی نکلے
جب زمانے نے بڑھایا ہے قلم اور طرف

آئنہ خاک کا دولخت نظر آتا ہے
دل کسی اور طرف جائے،صنم اور طرف

اس کی فطرت میں توازن کا ہنر ہے صاحب
وقت کا دھیان زیادہ ہے نہ کم اور طرف

دل نے پھر اسم کی گردان سے روکے ہیں قدم
جب بھی اٹھتے ہیں محبت کے قدم اور طرف

لے کے جاتی ہے ہوس بند گلی میں اسحاق
لے کے جاتے ہیں محبت کے الم اور طرف

Related posts

Leave a Comment