امجد نذیر ۔۔۔ دکھا کے صبح ہمیں،رات کرنے والا تھا

دکھا کے صبح ہمیں،رات کرنے والا تھا ہمارے ساتھ کوئی ہاتھ کرنے والا تھا ستارے ،پھول سبھی جھولیاں لیے پہنچے وہ اپنے حسن کی خیرات کرنے والا تھا پھراک پیادے کو قربان کردیا میں نے وہ بادشاہ کو شہ مات کرنے والا تھا مجھے بلایا تھا تالاب کے کنارے پر وہ چاند مجھ سے ملاقات کرنے والا تھا کہ پہلے بند کرائی گئی تھیں آنکھیں مری ضرور خواب طلسمات کرنے والا تھا کسی شکستہ چٹائی پہ بیٹھ کر امجد فقیر سیرِ سماوات کرنے والا تھا

Read More

امجدنذیر ۔۔۔ اپنے ہونٹوں سے گل فشانی کی

اپنے ہونٹوں سے گل فشانی کی آج اس نے بھی مہربانی کی پھول کاڑھے پھر ان کو پانی دیا میں نے تکیے پہ باغبانی کی تتلیاں پھول جان کر آئیں اس کی تصویر پر، جوانی کی کس قدر پرسکون ہے دریا یار تصویر کھینچ پانی کی ایک کردار کے نکالنے سے چاشنی بڑھ گئی کہانی کی چند مشکل سے لفظ بولے اور گاؤں والوں پہ حکمرانی کی

Read More