احمد حسین مجاہد … جو دل میں ہے وہ لب ِ چشم ِ تر نہیں آیا

جو دل میں ہے وہ لب ِ چشم ِ تر نہیں آیا

میں خواب لے کے سر ِ رہگزر نہیں آیا

لپٹ گیا صف ِ اعدا میں گھس کے یار سے میں

وہ زعم تھا مجھے لشکر نظر نہیں آیا

میں دے رہا ہوں سرھانے کو طول بازو سے

ابھی ترا مرے سینے پہ سر نہیں آیا

اسی لیے تو یہ بستی ہے نا مراد بہت

کسی کے کام کوئی وقت پر نہیں آیا

میں جل کے راکھ ہوا عشق میں مگر مجھ پر

کوئی بھی لمحہ ٔ نامعتبر نہیں آیا

کہ جو سنے وہ کہے میرے دل کی بات کہی

مرے سخن میں ابھی وہ اثر نہیں آیا

Related posts

Leave a Comment