کچھ سبزیوں کے بارے میں ۔۔۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔

کچھ سبزیوں کے بارے میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ کچھ دنوں کی چنیدہ خبریں دیکھیے: ’ملک میں پیدا ہونے والے پھلوں اور سبزیوں کے شعبے میں انتظامات کو بہتر بنا کر برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے‘، ’پھلوں اور سبزیوں کی مد میں زرمبادلہ کو ایک ارب ڈالر سالانہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔‘، ’پاکستان سے آلو، پیاز اور کینو کی برآمد کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں‘، ’مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آلو کی برآمدات کا آغاز بھی ہو گیا ہے‘، ’ رواں سال سبزیوں کی برآمدات میں 15.32فیصد اضافہ ہوا‘، ’ 82ہزار357ٹن پھل اور 78ہزار255ٹن سبزیاں مختلف ممالک کو برآمد کی گئیں۔‘
یہ خبریں تو وہ منظر پیش کر رہی ہیں کہ سبحان اللہ! برآمدات، برآمدات۔ کیا ہم واقعی اتنے امیر ملک میں جی رہے ہیں؟ کیا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہے؟ آلو، پیاز ، ٹماٹر اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیاءمارکیٹ میں رُل رہی ہیں؟ ہمیں ہوش سنبھالتے ہی نصابی کتب میں پڑھایا گیا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس میں رہنے والوں کی اکثریت زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔نصابی کتب شاید اب بھی اسی بات پر مصر ہوں۔ دوسری بات کو تو درست مانا جا سکتا ہے لیکن اول الذکر ایک دل فریب خواب کے جیسی ہے۔ہم خدا نخواستہ یہ دعویٰ نہیں کرنے جارہے کہ پڑھا، سنا سب غلط نکلا لیکن حالات دیکھ کر یہ ضرور کہیں گے کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے ضرور۔ اب یہ گڑ بڑ ہے کیا؟ ہمیں مل جل کر اسی کا کھوج لگانا اور تدارک کرنا ہے۔اوپر کچھ خبریں درج کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ واضح کیا جائے کہ ہمارے ہاں جو سبزیوں وغیرہ کی قلت کا رونا رویا جا رہا ہے، اس میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ برآمدات کی طرف توجہ کا ضرورت سے زیادہ ہونا بھی ہے۔کبھی کسی تجزیے میں اپنے ملک میں ’طلب‘ اور’ رسد‘ پر گفتگو دکھائی نہیں دی۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم سبزیاں دوسرے ملکوں سے منگوانے پر مجبورہیں، کیوں؟ ہماری تمام تر توجہ بین الاقوامی منڈیوں پر ہے، لیکن ہماری اپنی منڈیاں، جہاں بیچنے والے اور خریدنے والے ہمارے اپنے لوگ ہیں، اُن کا کیا ہو گا؟ ہم برآمدات کی اہمیت سے اِنکاری نہیں لیکن پیداوار پر پہلا حق پیداواری خطے کے باسیوں کا ہوتاہے۔ برآمدات کے منطقے میں داخلہ کے لیے رَسد کو مقامی طلب سے بڑھانا ضروری ٹھہرتا ہے۔ ہمارے ملک میں سالانہ 25 لاکھ ٹن پھل اور 30 لاکھ ٹن سبزیاں انھیں محفوظ کرنے کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث ضائع ہو جاتی ہیں۔ضائع ہونے والی ان قیمتی اجناس کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم نے کیا کِیا ہے؟ اِس مقصد کے لیے کولڈ چینز کہاں ہیں؟ ہم نے دیگر تمام معاملات کی طرح اس طرف بھی کبھی توجہ نہیں ۔ ہمارے ہاں کاشت کاری کے جدید اور زیادہ موثر طریقوں کی بابت عملی سطح پر ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ چلنے کی کوشش تک دکھائی نہیں دیتی۔ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن ہمیں بہ حیثیت قوم اِس سیکھنے کے عمل کی اہمیت سے آگاہی نہیں ہے۔
معاملاتِ زراعت پر غور کرتے کرتے ہمارے ہاتھ ایک خبر یہ بھی لگی کہ ایک دہائی قبل تک پاکستانی اپنی آمدنی کا اوسطاً 37 فیصد خوراک پر خرچ کرتے تھے لیکن اب 2013ءمیں یہ شرح 73 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔کیا کہتے ہیں ماہرینِ امورِ زراعت ومعاشیات اِس بارے میں؟ یہاں راوی نے بھی چپ سادھ لی کہ ایسا ہے تو ہو گا، آخر لوگ کماتے کس لیے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ راوی بے چارہ بھی کیا لکھے کہ وہ تو صبح سویرے سبزی کی دکان سے لوٹنے کے بعد سے سکتے میں ہے ۔
پچھلے دنوں ایک طویل عرصہ کے بعد اپنے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو اجڑے کھیت دیکھ کر ہول اُٹھنے لگا، دریافت کیا: بھائی! یہ کیا؟ باپ داد کے زمانہ کی لہلہاتی فصلیں کیا ہوئیں؟ یہ باغ ویران کیوں ہیں؟ دکھ بھرا جواب ملا: کیا کریں؟ بجلی دن بھر میں دو گھنٹہ کو آتی ہے، کس فصل کو پانی دوں، کس کو نہیں، اوپر سے بِل پہلے سے کئی گنا زیادہ۔ ہم خاموش ہو گئے۔ پھر ڈھارس بندھانے کی غرض سے گویا ہوئے کہ حکومت تبدیل ہو گئی ہے، اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔خدانے ہمارے کہے کی لاج رکھ لی کہ موجودہ حکومت نے اس مسئلہ پر تقریباً قابو پا لیا ہے اور آگے چل کر حالات مزید بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔لیکن ابھی اور بہت سے مسائل ہیں جن کے باعث کسان مسلسل پِس رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو مڈل مین کا ہے۔ اُگانے والا اور کھانے والا دونوں رو رہے ہیں لیکن اِس مڈل مین کے مزے ہیں۔ کسان سے کم قیمت پر مال اٹھانا اور کھانے والے کو زیادہ قیمت پر بیچنا، اوپر سے ذخیرہ اندوزی، یہ وہ مسائل ہیں جن پر فوری قابو پانے کی اشد ضرورت ہے کہ اب تو خوارک اور زراعت سے متعلق عالمی ادارے بھی حیرت میں ہیں کہ گندم، دودھ اور دیگر بنیادی غذائیں پیدا کرنے والا بڑا ملک ، پاکستان ان حالوں کیوں کر پہنچا؟ اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ پاکستان کے موسمی حالات اور آب و ہوا معیاری پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کے لئے انتہائی موزوں ہیں۔ یقین جانیے ان شعبوں سے متعلق بین الاقوامی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان اگر اپنے شعبہ زراعت پر توجہ دے تو دنیا کے امیر ترین ملکوں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ اب ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کی شدید کمی ہے۔ دعوے بہت کیے جاتے ہیں، سیمینارز اور کانفرنسز بہت ہوتی ہیں، بڑی بڑی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں، اس شعبہ میں موجود بدانتظامیوں کا رونا رویا جاتا ہے، لیکن عملی سطح پر کسان کی تربیت اور اس کا ذہن بنانے کے لیے کیا کیا جاتا ہے، یہ وہی جانتے ہیں جو اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس شعبہ میں اپنی علمی دھاک بٹھانے کے شائق عملی سطح پر صفر سے بھی نیچے جا پڑتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عوام کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے نعرے اور وعدے کے ساتھ حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔وفاقی اور صوبائی سطح پر تمام درپیش مسائل کے حل کے سلسلہ میں منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ عملی کوششوں کا آغاز بھی نظر آ رہا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی ذاتی دل چسپی اور کوششوں کے بعد اَب اشیائے خوردنی بالخصوص سبزیوں کی قیمتوں میں استحکام آتا نظر آ رہا ہے۔صوبے میں سستے بازاروں کا دائرہ کار وسیع کیا جا رہا ہے ۔ کچن گارڈننگ کا منصوبہ بھی اِس شعبہ میں خود کفالت کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس سلسلہ میں پنجاب ایگری کلچر اینڈ میٹ کمپنی عوام کو گھروں میں کاشت ہو سکنے والی سبزیوں کے اعلیٰ معیار کے بیج اور رہنمائی مفت مہیا کر رہی ہے۔ 30نومبر کو ریلوے اسٹیشن پر عوام کی عملی تربیت کے لیے ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔اس تقریب میں روایتی اندازِ میزبانی و میہمانی سے گریز کرتے ہوئے تمام تر توجہ منصوبے سے آگاہی اور عملی تربیت پر دی گئی۔ عوام کی اس منصوبہ میں دل چسپی دیکھتے ہوئے اِس منصوبے سے مثبت نتائج کی توقع ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف امداد پر انحصار کرنے کی بجائے معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہماری اُن سے درخواست ہے کہ وہ زراعت کے شعبہ پر خصوصی توجہ دیں کہ زراعت کے شعبے میں استحکام کا مطلب ملکی معیشت کا استحکام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۴ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment