الیاس بابر اعوان … یار جو کچھ یہاں پہ چل رہا ہے

یار جو کچھ یہاں پہ چل رہا ہے
سچ کہوں تو گماں پہ چل رہا ہے

اِس قدر خُوب رو جوان ہے وہ
جو اُدھار اِس دُکاں پہ چل رہا ہے

اصل میں مسئلے معاشی ہیں
یوں تو جھگڑا زباں پہ چل رہا ہے

اِتنا پڑھ لکھ کے میں یہ سمجھا ہُوں
سارا سسٹم اذاں پہ چل رہا ہے

عشق ہو ، شاعری ہو ، وحشت ہو
کاروبار اب خزاں پہ چل رہا ہے

وہ ملے تو اُسے بتانا مرا
کھوٹا سکہ یہاں پہ چل رہا ہے

سب کے سب دفن ہو چکے ہیں لوگ
کیس ابھی بھی مکاں پہ چل رہا ہے

اُس کی رُخصت سے آشکار ہُوا
باغ تو باغباں پہ چل رہا ہے

Related posts

Leave a Comment