ساقی فاروقی

 

دیارِ مرگ میں زندہ نظر بھی جاتے ہیں
دیے تک اُڑ کے پہنچتے ہیں، مر بھی جاتے ہیں

جو روح پر کسی وحشت کی چھوٹ پڑتی ہے
تو ہم خیال کی طاقت سے ڈر بھی جاتے ہیں

تری تلاش میں جاتے ہیں بے ارادہ بھی
اور اپنے خون کی تحریک پر بھی جاتے ہیں

یہ حادثہ ہے کہ پندار پر بھی بات آئی 
وگرنہ زخم محبت کے بھر بھی جاتے ہیں

بہت دنوں سے ہمارے تعلقات نہیں
مگر خدا کی گلی سے گزر بھی جاتے ہیں

 

Related posts

Leave a Comment