سید قاسم جلال ۔۔۔ اظہار محال ہو گیا ہے

اظہار محال ہو گیا ہے
احساس وبال ہو گیا ہے

اب کچھ تو جواب دے زمانہ
ہر چہرہ سوال ہو گیا ہے

دل کی ہے اُڑان اب بھی جاری
گو بے پر و بال ہو گیا ہے

خوشیوں کو تلاش کرتے کرتے
دل وقفِ ملال ہو گیا ہے

ہر ایک جھپٹ رہا ہے جیسے
سُکھ لُوٹ کا مال ہو گیا ہے

میرے تری آنکھ میں ہیں آنسو
اے دوست! کمال ہو گیا ہے

محجوب نگاہ ہو گئی ہے
مستور جمال ہو گیا ہے

وارث کو تو خوں بہا ملا کچھ
خوں میرا حلال ہو گیا ہے

آزاد ہے روح قیدِ غم سے
جس دن سے وصال ہو گیا ہے

میرا دلِ زار؟ خیر چھوڑو
بس یوں ہی نڈھال ہو گیا ہے

صیّاد کا خوف کس لیے ہو
جب باغ ہی جال ہو گیا ہے

تنگ آ کے علاج سے مسیحا
مصروفِ قتال ہو گیا ہے

الفاظ کے پیرہن میں آکر
مجروح خیال ہو گیا ہے

مستقبل زیست کے لیے کیوں
ابتر مرا حال ہو گیا ہے

اپنے ہی خلاف دی گواہی
کیا تجھ کو جلال ہو گیا ہے

Related posts

Leave a Comment