محمد انیس انصاری ۔۔۔ پانی ہے ، تو دریا ہے

پانی ہے ، تو دریا ہے
سوکھ گیا تو صحرا ہے

اس کا نام محبت ہے
اُس نے پلٹ کر دیکھا ہے

اُس کے بدن کی خوشبو ہے
سارا کمرہ مہکا ہے

یہ آنا ، کیا آنا ہے،
بادل وہ ، جو برسا ہے

پیچھے میرے ، ٹریفک جام
آگے سڑک پہ دھرنا ہے

اہلِ تکاثر سے کہہ دو
عزّت ہی سرمایہ ہے

پہلے وعدہ کرنا ہے
اگلا کام مُکرنا ہے

بربادی کے قصّے میں
کِس کا کتنا حصہ ہے

اُس نے خط میں جانِ انیس!
اپنا نام ہی لکھّا ہے

Related posts

Leave a Comment