سید قاسم جلال ۔۔۔ ہر غم سے نجات ہو گئی ہے

ہر غم سے نجات ہو گئی ہے اُن سے مری بات ہو گئی ہے دل اتنا خموش تو نہیں تھا کیا اِس کی وفات ہو گئی ہے دن رات گزر کے مشکلوں سے آسان حیات ہو گئی ہے بولو کہ رہِ وفا میں مَر کے جیتے ہو کہ مات ہو گئی ہے وہ جدّوجہد ، جو تھی اضافی کیوں حصّۂ ذات ہو گئی ہے؟ کیوں دن کو بھی اب کچھ آنکھ والے کہتے ہیں کہ رات ہو گئی ہے تم کیوں ہو جلال سے گریزاں کیا کوئی بات ہو گئی…

Read More

سید قاسم جلال ۔۔۔ اظہار محال ہو گیا ہے

اظہار محال ہو گیا ہے احساس وبال ہو گیا ہے اب کچھ تو جواب دے زمانہ ہر چہرہ سوال ہو گیا ہے دل کی ہے اُڑان اب بھی جاری گو بے پر و بال ہو گیا ہے خوشیوں کو تلاش کرتے کرتے دل وقفِ ملال ہو گیا ہے ہر ایک جھپٹ رہا ہے جیسے سُکھ لُوٹ کا مال ہو گیا ہے میرے تری آنکھ میں ہیں آنسو اے دوست! کمال ہو گیا ہے محجوب نگاہ ہو گئی ہے مستور جمال ہو گیا ہے وارث کو تو خوں بہا ملا کچھ…

Read More

سید قاسم جلال ۔۔۔ اتنا مسرور نہ ہو دیکھ کے سُندر چہرے

اتنا مسرور نہ ہو دیکھ کے سُندر چہرے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں اکثر چہرے دم بخود رہ گیا سفّاک لُٹیروں کاگروہ گھر سے جب نکلے محافظ بھی چھپاکر چہرے آج یادوں کے شفق رنگ دریچے مت کھول ورنہ سونے نہیں دیں گے تجھے شب بھر چہرے سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا سینے میں جب کبھی اُبھرے ہیں یادوں کے اُفق پر چہرے دل میں جب خواہشِ دیدار کے شعلے بھڑکے کھا گیا وقت کا بے رحم سمندر چہرے ہم نے بدلیں نہ کسی راہ پہ اپنی آنکھیں گو…

Read More

سید قاسم جلال ۔۔۔ لائے ہیں پیغام کسی کا مست ، نشیلے موسم

لائے ہیں پیغام کسی کا مست ، نشیلے موسم رنگ رنگیلے ، چھیل چھبیلے اور سجیلے موسم اب بجھتی سوچوں کے خالی کاسے بھر جائیں گے کرنیں بانٹ رہے ہیں اندر کے چمکیلے موسم پھر لہجوں میں تلخی کا عنصر بڑھتا جاتا ہے کانچ کی بستی میں پھر اُترے ہیں پتھریلے موسم سوچ کی دھرتی سے ہوں دور اگر پتھّر اور کانٹے رنگ بکھیریں کومل جذبوں کے شرمیلے موسم آہوں سے اکثر اندر کے طوفاں تھم جاتے ہیں غم کی آگ بجھاتے ہیں اشکوں کے گیلے موسم چاہت کے اِن…

Read More