شوکت محمود شوکت ۔۔۔ دو غزلیں

نفرت ہے مجھے پیار سے ، الفت سے ، وفا سے
اُجڑا ہے دلِ وحشی ، حسینوں کی ادا سے

ملنے کا جو وعدہ ہے اسے اب کے وفاکر
یوں دے نہ محبت میں مجھے اور دلاسے

اس زخمِ تمنا کا نہیں کوئی بھی چارہ
بھرتا نہیں ہرگز یہ دوا سے نہ دعا سے

دنیا کی نمائش سے کیا ہم نے کنارہ
اک چین ملا ، لو جو لگالی ہے خدا سے

ہر بات پہ ہوتا ہے محبت کا گماںسا
وہ غنچہ دہن بات کرے ایسی ادا سے

شیدا ہیں تری مست نظر کے سبھی ساقی!
جائیں تو کہاں جائیں مئے عشق کے پیاسے

میرے لیے اپنی ہی زمیں ، خُلدِ بریں ہے
کم تر تو نہیں خاکِ وطن ، خاکِ شفا سے

جیسا کہ ستاروں میں ہو مہتاب درخشاں
لگتے ہیں بھری بزم میں وہ اتنے ، جدا سے

بچپن سے ترے عش میں ڈوبا ہوا ، شوکت
کھائے نہ کوئی خوف کسی موجِ فنا سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا کہا ، کیوں کر کہا ، کس کو کہا ، کیسے کہا؟
سوچتا ہوں ، اس نے مجھ کو بے وفا ، کیسے کہا؟

زندگی ، اپنی گزرتی جا رہی ہے تیرے بن
زندگی کو پھر بتا ، اچھا ، بھلا ، کیسے کہا؟

پھول کی کیا زندگی ہے؟ سوچنا تنہائی میں
پھول کو ممکن نہیں کوئی فنا ، کیسے کہا؟

آج کل مخلص نہیں کوئی ، جہاں میں دیکھ لے
آج کل کے آدمی کو باوفا ، کیسے کہا؟

راہ گیروں کے لیے روشن رہا جو رات بھر
آئو مل کر توڑتے ہیں وہ دیا ، کیسے کہا؟

در بدر پھرتا رہا ہوں میںتلاشِ یار میں
مجھ کو پھر آساں طلب ، جانِ ادا ! کیسے کہا؟

عشق کا انجام رسوائی بجز ہے اور کچھ؟
عشق میں شوکت بہت ، رسوا ہوا ، کیسے کہا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment