مظفر حنفی ۔۔۔۔ منزل سے کٹ کے دشت کو رَستا نکل گیا

منزل سے کٹ کے دشت کو رَستا نکل گیا

لگتا ہے جیسے پاؤں سے کانٹا نکل گیا

سائے مچل رہے ہیں چراغوں کی گود میں

سمجھے تھے ہم کہ گھر سے اندھیرا نکل گیا

خود ہی جمالیات میں کمزور رہ گئے

یا تتلیوں کا رنگ بھی کچّا نکل گیا

وا حسرتا کہ سانس کی مہلت نہیں مجھے

پھر سَر سَرا کے عیش کا جھونکا نکل گیا

ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں غلط اثر

بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے، بیٹا نکل گیا

تم رخ بدل رہے تھے زمانے کے ساتھ ساتھ

کیسا نظر بچا کے زمانہ نکل گیا

دنیا سے مختلف ہے مظفرؔ کا راستہ

اتنا لٹے کہ نام ہمارا نکل گیا

Related posts

Leave a Comment