مظفر حنفی ۔۔۔ سیلابوں کو شہ دینے میں ، طوفاں کو اکسانے میں

سیلابوں کو شہ دینے میں ، طوفاں کو اکسانے میں

کتنے ہاتھوں کی سازش ہے اک دیوار گرانے میں

تو نے بہتیرا سمجھایا، موٹی کھال ، گِرَہ میں مال

اے دُنیا، کیسے آ جاتے ہم تیرے بہکانے میں

فن کو مہکائے رکھتے ہیں زخمی دل کے تازہ پھول

ٹوٹی تختی کام آتی ہے نیّا پار لگانے میں

تتلی جیسے رنگ بکھیرو گھایل ہو کر کانٹوں سے

مکڑی جیسے کیا الجھتے ہو غم کے تانے بانے میں

بیزاری کے ہاتھ نہ مرنا، سو حیلے ہیں جینے کے

پیارے ، سر میں وحشت ہو تو گرد بہت ویرانے میں

بجھتے بجھتے بھی ظالم نے اپنا سر جھکنے نہ دیا

پھول گئی ہے سانس ہوا کی ایک چراغ بجھانے میں

کھویا جی کا چین مظفرؔ اُن سے ترکِ تعلق پر

آ پہنچے گرداب کے منہ تک، دریا سے کترانے میں

Related posts

Leave a Comment