محب عارفی

بحر میں کچھ نہیں قطروں کے سوا ، کیا سمجھے
ہوئے جاتے ہیں وہ قطرے بھی ہوا، کیا سمجھے

بزم میں کوئی نہیں اور بپا ہیں ہر سُو
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کیا سمجھے

مے کدے میں نہ صراحی ہے، نہ ساغر ، نہ شراب
کوئی یہ راز کہ گردش میں ہے کیا کیا سمجھے

جوئے بے آب میں لہریں سی رواں ہیں کیوں کر
غوطہ خوارانِ یمِ چون و چرا! کیا سمجھے

کل خلا کو جو سمجھتے تھے محال، آج انھیں
ہر حقیقت نظر آتی ہے خلا، کیا سمجھے

ہم جو سمجھے تھے کے بس پا گئے منشا اُس کا
سوچتے رہ گئے، جب اُس نے کہا: کیا سمجھے

لب کو لب سمجھیں گے، رخسار کو رخسار، محب!

حسن کو حسنِ نظر شوقِ لقا کیا سمجھے

Related posts

Leave a Comment