بھٹو۔۔زرداری، زرداری۔۔بھٹو …. نوید صادق

میرا پاکستان
……..

بھٹو ۔۔ زرداری، زرداری ۔۔بھٹو
…………….

یا تو ہم لوگ بہت سادہ ہیں، یا بے وقوف۔ ویسے دیکھا جائے تو بے وقوفی اور سادگی میں بڑا باریک فرق ہوتا ہے۔اور اس فرق کو پاٹنے میں کچھ ایسا خاص عرصہ بھی نہیں لگتا۔ اِدھر یا اُدھر، کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں ہم کوئی ”چول“ مار بیٹھتے ہیں اور بعد میں کوسنے لگتے ہیں اپنی تقدیر کو۔ ہمارے ہاں تقدیر کا معاملہ بھی خوب ہے، جب کہیں، کوئی بس نہ چلا تو تقدیر۔ اچھا یہ تقدیر نامی چیز ہمیں کبھی اچھے وقت میں یاد نہیں آئی۔وجہ کچھ بھی ہو، ہم عجوبہ روزگار قسم کی کوئی چیز بنتے جا رہے ہیں۔
برسوں پہلے ایک بار ووٹ ڈالنے کے لیے ایک پولنگ سٹیشن پر گئے، اپنی باری کے انتظار میں کھڑے تھے کہ پاس کھڑے دو لوگوں کے درمیان ہوتا مکالمہ کان پڑا: ’ووٹ کسے دے رہے ہو‘؟۔ ’خان صاحب کو، اور کسے دینا ہے‘۔ ’کیوں؟ کوئی خاص وجہ‘؟ ’پارٹی جسے ٹکٹ دے گی، ووٹ تو ہم اسی کو دیں گے‘۔ ’لیکن خان صاحب نے پچھلی بار منتخب ہونے کے بعد حلقے میں ٹکے کا بھی کام نہیں کیا تھا۔اب پھر انھی کو۔۔‘۔”کام نہیں کیا تھا، لیکن کیا کریں، پارٹی نے ٹکٹ ہی انھیں دیا ہے۔‘ ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگلے پانچ سال بھی غارت سمجھیں‘۔ ’یار! تم کیوں پریشان ہو رہے ہو، یہ ہمارے تمھارے سوچنے کی باتیں تھوڑی ہیں‘۔ ہم نے تھوڑا دخل اندازی کی کوشش کی، معذرت طلب کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ آپ لوگ کٹھ پتلیوں کی طرح کیوں سوچ رہے ہیں، اپنی سمجھ بوجھ کو بھی کام میں لائیں۔ دونوں اصحاب نے حیرانی اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ہمیں گھورا، ایک دوسرے کی آنکھوں میں معنی خیز انداز میں دیکھااور پھر ایک صاحب ہم سے مخاطب ہوئے:’ تمھیں کوئی تکلیف ہے، تم اپنی پارٹی کو ووٹ دو، ہم اپنی پارٹی کو ووٹ دیں گے‘۔ ہم نے مزید کچھ عرض کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک صاحب گالی گلوچ پر اترتے نظر آئے‘۔ ہم نے عافیت اسی میں جانی کی خاموشی سے ایک طرف ہو جائیں۔
ہماری سوچ کا معیار یہ ہے تو نتائج بھی اسی قماش کے نکلیں گے۔دراصل ہم بڑے جذباتی اور ہمدرد قسم کے لوگ ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کوووٹ کیوں پڑے،سب جانتے ہیں، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس لیے ووٹ ڈالے گئے کہ وہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں، اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کو جناب ضیاءالحق نے پھانسی چڑھوا دیا تھا۔ اب محترمہ بے نظیر بھٹو ایک مظلوم بیٹی بن کر سامنے آئیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا تو جناب آصف علی زرداری مظلوم بن گئے، ایک مظلوم شوہر۔ پہلے قوم نے ایک مظلوم بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا، اور پھر ایک مظلوم شوہر کے سر پر۔پیپلز پارٹی کو بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ جناب آصف علی زرداری کو ووٹ اپنی بیوی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کی قیمت پر ملا۔اب جب جناب بلاول بھٹو زرداری نے سیاست میں آنے کا باقاعدہ اعلان کیا تو نانا اور امی والے قصے نہ صرف یہ کہ پرانے ہو چکے ہیں، بل کہ کیش بھی کروائے جا چکے ہیں، تو بے چارے کیا کریں۔ لیکن اُن کی دھواں دھار تقریروں کے پیچھے کوئی بڑا گھاگ قسم کا سیاست دان ہے، وہ انھیں کیسے مظلوم بنا کر پیش نہیں کرے گا۔ سو جناب بلاول بھٹو زرداری نے نعرہ لگا ڈالا کہ وہ اُس باپ کے بیٹے ہیں جسے پانچ سال ایوانِ صدر میں قیدی بنا کر رکھا گیا۔کیا خوب کہانی گھڑی گئی ہے۔ اچھا ، مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے سادہ لوح بھائی جو جناب بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سن رہے تھے، اِس واردات کا سن کر افسوس کرتے نظر آئے۔لیکن اس بار کہانی کا پلاٹ بہت کمزور ہے۔ جناب بلاول بھٹو زرداری کی بظاہر دھواں دھار لیکن دراصل بچگانہ تقریر سے صاف نظر آ رہا ہے کہ پڑھانے والے نے انھیں اپنے تئیں بہت کچھ پڑھاڈالا ہے۔ دیسی سیاست کے سارے داؤ پیچ، سارے ہتھکنڈے انھیں سکھا دیے ہیں۔ جیالوں کے کچے پکے ذہنوں کی ساخت سمجھا دی ہے۔ اور تو اور ان کی تقریر میں اشعار بھی ڈال دیے کہ وہ عہدِ موجود کے کسی سیاست دان سے پیچھے نہ رہیں۔دوسری سیاسی جماعتوں سے منسلک افراد کے بارے میں غیر شائستہ زبان کا استعمال تو اب کیا کہا جائے کہ ایک رواج کی صورت اختیار کر چلا ہے، جناب بلاول بھٹو زرداری کی تقریر میں بھی نمایاں رہا۔ہمارے آج کے اکثروبیش تر سیاست دانوں کی تقریریں کسی مزاحیہ مضمون سے کم نہیں ہوتیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ وہ عوام کی تفریح کا سامان بہم کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ان سیاسی جماعتوں کے تو کیا کہنے ہیں کہ جنھوں نے اپنے سیاسی جلسوں میں ناچ گانے تک کا بندوبست کرنا شروع کر دیا ہے۔اگر یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو آئندہ انتخابات میں سیاسی جلسوں کے لیے بھارتی اداکاروں اور اداکاراؤں سے بھی مدد لی جانے کی امید کی جا سکتی ہے۔ خان صاحب! کیا خیال ہے؟
بات بہت دور نکل گئی۔تو قصہ یوں ہے کہ جناب آصف علی زرداری گذشتہ پانچ برس ایوانِ صدر میں قید رہے ہیں۔ اس سے بڑا لطیفہ یقیناً نہیں ہو سکتا کہ جو شخص سپریم کورٹ اور صوبہ پنجاب کے معاملات کو چھوڑ کر پانچ برس ہمارا کرتا دھرتا رہا، آج اسے قیدی قرار دیا جا رہا ہے۔ جناب آصف علی زرداری کے ہوتے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم خواہ وہ جناب یوسف رضا گیلانی ہوں خواہ جناب راجا پرویز اشرف، کی حیثیت کٹھ پتلیوں سے زیادہ نہیں تھی۔ بل کہ پرانے جیالے یعنی خاص وہ جیالے جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے چلے آرہے ہیں، جناب آصف علی زرداری سے اپنی ناراضی کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جناب آصف علی زرداری نے بھٹو خاندان سے پارٹی ہتھیا لی ہے،اور اب پاکستان پیپلز پارٹی، زرداری پیپلز پارٹی ہے۔
ایک شہید نانا کا نواسا، ایک شہید ماں کا بیٹا، ایک قیدی باپ کا بیٹا، اب کیا کرتا ہے، عوام کی اور بالخصوص اپنے جیالوں کی ہمدردیاں سمیٹ پاتا ہے کہ نہیں، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس چالاکی اور ہوشیاری سے جناب بلاول زرداری کے نام میں لفظ ”بھٹو“ کا اضافہ کیا گیا تھا، اُسی انداز میں معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا اور جناب بلاول بھٹو زرداری کے لیے میدانِ سیاست کو ہموار کیا جائے گا۔ آگے چل کر جناب بلاول بھٹو زرداری کا پاکستانی سیاست میں کردار یہ بھی ثابت کرے گا کہ بھٹو خاندان کو زرداری خاندان کا تڑکا لگا ہے کہ زرداری خاندان کو بھٹو خاندان کا۔ابھی تو باپ بیٹے کی زبان اپنے مخالفین کے بارے میں تقریباً ایک سی لگ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۳۰ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment