پاک بھارت تعلقات ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔

پاک بھارت تعلقات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل ہمارے ہاں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے آثار دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ آثار ہر سال دو سال بعد نظر پڑتے ہیں۔ خواب دیکھنے چاہئیں، اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن کبھی کبھی صبح آنکھ کھلنے پر اچھی طرح آنکھیں مل کر ایک ذرا دیر کو رات دیکھے گئے خواب کو حقیقت کی کھلی آنکھ سے دیکھ لینا بھی ضروری ہے کہ اس ورزش سے آنکھیں بوسیدہ نہیں ہوتیں۔ اور واضح رہے کہ بوسیدہ آنکھیں بھارتی فلموں میں تو چل نہیں سکتیں۔ بھارت سے ہماری دشمنی کی داستان بہت طویل ہے۔بڑوں نے ہمیں ہوش سنبھالتے ہی بتا دیا تھا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور ہم نے بھی اس دانش بھری بات کو پلے باندھ لیا۔ اب جب ہم دونوں ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد یا تبدیلی سے پہلے ایسے نعرے، ایسی خواہشیں دیکھتے ہیں تو تھوڑا پاگلوں کی طرح ہنستے ہیں اور پھر خاموش کہ یہ ڈرامے دیکھتے چالیس سال تو ہمیں بھی ہو ہی گئے ہیں۔ کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
نورالہدیٰ نیپالی کہ جامعہ ہندسیہ لاہور میں ہمارا ہم جماعت اور سیدھا سادہ مسلمان تھا، یاد آ گیا۔ ایک دن ایک دوست نے اُسے اپنے گھر کھانے پر بلایا، کسی وجہ سے ہم نہ جا سکے۔ واپسی پر ہمارے کمرہ میں آیا تو بولا:’یار! یہ تم اپنے بچوں کو اپنے دشمنوں کے بارے میں اتنی تفصیل سے کیوں بتاتے ہو۔‘ ہم نے کہا: ’بھائی! کیا ہوا؟‘۔ بولا : ’آج دعوت میں ایک آٹھ سالہ بچے کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں نیپال میں رہتا ہوں تو پوچھنے لگا، انکل! آپ کا دشمن کون ہے۔میں نے جواب دیا، ہمارا کوئی دشمن نہیں تو بچے نے حیرانی کا اظہار کیا۔ پھر میں نے بچے سے پوچھا، بیٹا آپ کا کوئی دشمن ہے تو جھٹ بولا، جی انکل! انڈیا۔‘ ہم نے ایک زوردار قہقہہ لگایا:’ نورالہدیٰ! تم ان باتوں کو نہیں سمجھو گے“۔ اُسے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
ہم دونوں ممالک کے مسائل ہی عجیب ہیں۔ ہمارے تقریباً سبھی دریا بھارت سے نکلتے ہیں۔ بھارت آئے دن ہمارے ہاں پانی کی قلت پیدا کرنے کے لیے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ جب ہم اپنے گھر جاتے ہوئے دریائے ستلج میں ریت اڑتی دیکھتے ہیں تو ہمارا خون کھولنے لگتا ہے، جب لاہور میں دریائے راوی میں سیاہ رنگ کا پانی بہتا دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں۔ ابھی بھارت دریائے جہلم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کرنے والا ہے۔ ہم کیا کریں؟ جو ہمیں فاقوں مارنا چاہتا ہے، اُس سے دوستی کے خواب دیکھیں۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ ہم نے یہ ملک خوشی خوشی نہیں لیا، ہمیں مجبور کیا گیا تھا کہ ہم الگ وطن کا مطالبہ کریں اور پھر ہم نے اس مطالبے کو عملی شکل دے دی۔
آج بھارت سے دوستی کے خواب دیکھنے والے شاید بہت کچھ بھول گئے ہیں، لیکن ہم عوام نہیں بھولے۔ یہ جو طالبان، طالبان ہو رہی ہے، اس میں کہیں نہ کہیں بھارت کا ہاتھ بھی ہے۔پاکستان کو نیچا دکھانے اور اپنے سے پیچھے رکھنے کے لیے بھارت ہر ممکن حربہ اختیار کرتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی اپنے تخریبی ہتھ کنڈوں سے باز نہیں آئے گا،آپ مانیں نہ مانیں، ہمیں تو پورا یقین ہے۔ پاکستان میں کئی حکومتوں نے اپنے ادوار میں بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن تھوڑی گفت و شنید کے بعد اچانک کسی محاذ پر سرحدی خلاف ورزیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اور تعلقات واپس۔۔۔’ جیسے تھے‘۔
پاکستان میں موجودہ حکومت نے بھی اس سلسلے میں نیک خواہشات کے اظہار کے ساتھ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ دونوں طرف سے واہ واہ ہو رہی ہے۔ بھارتی دفترِ خارجہ نے بھی بظاہر خوش کن بیانات دیے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف اس معاملے میں بہت سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے قبل جناب عمران خان بھی بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی بھارت یاترا فرما چکے ہیں۔ ہمارے ان سبھی رہنماؤں نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اور بھارت نے بھی فی الحال ہماری ہاں میں ہاں ملائی ہے، لیکن: آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کہ ہمیشہ سے بات کا بتنگڑ بنانے میں استاد ہے،معاملات میں مثبت پیش رفت کے حوالے سے بہت شور مچا رہا ہے۔ مستقبل کے سہانے خواب دیکھے اور دکھائے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ان لوگوں نے ابھی سے جشن منانا شروع کر دیے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہونے والے مباحثوں، مذاکروں میں شریک ہو کر دوستی کے نعرے لگانے والے مفکرین اور ہر دل عزیز شخصیات کے بارے میں کیا کہیں کہ ”پاکستان“ اور ”پاکستانیت“ کبھی ان کا مسئلہ رہے ہی نہیں، ان میں بعض تو وہ ہیں جو سرے سے نظریہ پاکستان ہی کے مخالف ہیں اور آئے دن کھلم کھلا اپنے ایسے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان معاملات میں پیش رفت کے حوالے سے منفی پہلووں کا جائزہ لینا کسی کو نصیب نہیں ہو رہا۔ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے قربان جائیے کہ انھیں اپنے ناظرین کی آنکھوں کی ٹھنڈک برقرار رکھنا ہے۔ کسی بھارتی ہیرو یا ہیروئن کو چھینک بھی آ جائے تو ہمارے خبرنامہ میں نمایاں جگہ پاتی ہے۔ بھارتی اداکاراؤں کی سالگرہ کی خبر بھارتی ٹی وی چینلوں سے پہلے پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر نظر آتی ہے۔ ذرا اُٹھیں ، ٹیلیویژن چلائیں، آپ کو خبر مل جائے گی کہ آج کے دن دھوم3نے کتنا بزنس کیا ہے۔ یہ ہے ہماری پاکستانیت اور حب الوطنی۔ ایک ذرا سی بات ہوئی اور بنگلہ دیش کی حکومت نے ہمارے ٹی وی چینلوں کی نشریات روک دیں۔ ہماری مصنوعات پر پابندی زیرِ غور ہے۔ بنگلہ دیش سے یاد آیا، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والے بھارت سے دوستی ہمارا بھولا پن ہے یا کچھ اور۔ ابھی تو بھارت نے بلوچستان کے حوالے سے جو منصوبہ بندی کر رکھی ہے، ہمیں اِس کا تدارک بھی کرنا ہے۔ حکومتی سطح پر مصالحتی کوششیں اچھی بل کہ بہت اچھی لگتی ہیں لیکن قبل ازوقت خوش فہمیاں خوب نہیں ہوتیں۔یوں بھی ہمارے ماہرینِ امورِ سیاست اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں کچھ مسائل ایسے ہیں جو دونوں ملکوں کو کبھی مل بیٹھنے نہیں دیں گے۔ ان میں کشمیر کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ اس مسئلہ پر نہ ہم ہار مانیں گے اور نہ ہی بھارت۔ دونوں ممالک میں پانی کا تنازعہ بھی اتنا سیدھا نہیں کہ اس کا کوئی حل نکل آئے۔ پھر بھارت کی ہمارے خلاف ڈھکی چھپی کاروائیاں، کیا بھارت ان سے باز آئے گا؟ کبھی نہیں۔ایسے میں ہمارے ہاں ان ادیبوں شاعروں کو بھی اپنے احساسِ کم تری پر تھوڑا غور کرنا چاہیے جو بھارت جا کر مشاعرے پڑھنے پر پھولے نہیں سماتے، اور پہلو بدل بدل کر تصویریں کھنچوانے کے بعد بصد ناز فیس بک وغیرہ پر لگا تے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت میں ایک مشاعرہ پڑھ آنے کے بعد کیا ان کے سروں پر کوئی سرخاب کا پر لگ جاتا ہے۔ بھائی لوگو! اپنے ملک، اپنے لوگوں سے محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں، پھر یہ اللے تللے کاہے کو!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۲۸ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment