فرحان کبیر ۔۔۔ بولنے کو چار جملے رہ گئے تھے

بولنے کو چار جملے رہ گئے تھے
اب وہاں کشتی کے ٹکڑے رہ گئے تھے

پُھول سرشاری میں گرتے رہ گئے تھے
لوگ آوازوں سے پیچھے رہ گئے تھے

اُس کی یادوں کے پرندے ساتھ آ کر
ڈُوبتی کشتی میں بیٹھے رہ گئے تھے

گرتے ہی گلدان زخمی ہو گئی شام
میز پر دو پُھول مہکے رہ گئے تھے

اُس نے ایسا لفظ تختی پر لکھا تھا
سب کے سب اِملائیں کرتے رہ گئے تھے

بینچ کے ٹوٹے ہوئے بازو سے بچ کر
لوگ تیزی سے گزرتے رہ گئے تھے

سب گھروندے مِٹ گئے فرحان، لیکن
ریت پر دو ہاتھ رکھے رہ گئے تھے

Related posts

Leave a Comment