فرحانہ عنبر ۔۔۔ غمِ حیات کے ماروں کو زندگی بخشی

غمِ حیات کے ماروں کو زندگی بخشی وجودِ عشق نے ذرے کو آگہی بخشی لہو جگر کا جلایا تو کوئی بات بنی پھر اُس کے بعد چراغوں نے روشنی بخشی مرے وجود کے اندر بھی کوئی رہتا ہے کسی کے پیار نے چہرے کو تازگی بخشی مرے کریم کا احسان ہے بہت مجھ پر مجھے شعور دیا اور شاعری بخشی ہزار خواہشیں اک دل کو سونپ کر عنبر جو ایک زندگی بخشی تو عارضی بخشی

Read More

فرحانہ عنبر ۔۔۔ اندیشہ

اندیشہ۔۔۔۔۔۔سنو، اے زندگی!ٹھہرو،وہ مجھ سے ملنے آیا ہےمرے اندر بہت سی ان کہی پیاسی تمنائوں نے پھر سے سر اٹھایا ہےکہیں یادوں کے ساحل پر پڑی کچھ سیپیوں کو میں نے کتنے پیار سےچاہت کی ڈوری میں پرویا ہےیہ ڈوری ٹوٹ نہ جائےوہ مجھ سے روٹھ نہ جائےمرے ہاتھوں سے دامن عشق کا پھر چھوٹ نہ جائےدھنک رنگی فضائوں سے اترتیدل دریچے پر صدا دیتی وہی مانوس سی آواز پہ دل کھنچتا جاتا ہےکہیں وہ لوٹ نہ جائےیہ سپنا ٹوٹ نہ جائےسنو، اے زندگی! ٹھہرووہ مجھ سے ملنے آیا ہے

Read More