فرحانہ عنبر ۔۔۔ غمِ حیات کے ماروں کو زندگی بخشی

غمِ حیات کے ماروں کو زندگی بخشی
وجودِ عشق نے ذرے کو آگہی بخشی

لہو جگر کا جلایا تو کوئی بات بنی
پھر اُس کے بعد چراغوں نے روشنی بخشی

مرے وجود کے اندر بھی کوئی رہتا ہے
کسی کے پیار نے چہرے کو تازگی بخشی

مرے کریم کا احسان ہے بہت مجھ پر
مجھے شعور دیا اور شاعری بخشی

ہزار خواہشیں اک دل کو سونپ کر عنبر
جو ایک زندگی بخشی تو عارضی بخشی

Related posts

Leave a Comment