ظفر اقبال نادر ۔۔۔ غلام گردش

سُلگتی راکھ کا منظر ہے روشنی کی صبُوح
اندھیرا خوف کا پھوٹا ہے کس جہان سے یہ؟
کہ جس نے حَلق سے آواز تک چُرا لی ہے
مگر یہ کون کہ معنیٰ اِسی سکوت سے لے
کوئی غلام ہی ہو گا کہ چپ سمجھتا ہے
صدا اُٹھائو کہ ہم سانس بھر تو جِی پائیں
جو گروی رکھ دی ہے اک حبس کی تجوری میں
عوض میں جس کے یہ کچھ بے وقار سانسیں لیں
صدا کے کعبے کو مسمار اَبرہَہ نے کیا
صدا بچانے ابابیل تک نہیں اُتری
صدا اُٹھائو کہ نکلیں غلام گردش سے
کہ جس میں دفن کئی نسل کی صدائیں ہیں
یہ میری سوچ میں رقصاں مرے سوال ہیں جو
سرِ خمیدہ کو بخشیں گے تَاب اُٹھنے کی
یہی وہ آگ جو اس جبر کے اندھیروں کو
نوالہ جان کے نگلے گی ایک ساعت میں
سُلگتی سوچ یہ کہتی ہے میرے کانوں میں
’’سلگتی راکھ بھی رکھتی ہے ایک خُوئے نمو
سُلگتی راکھ کا منظر ہے روشنی کی صبُوح

Related posts

Leave a Comment