ظفر اقبال نادر ۔۔۔ غلام گردش

سُلگتی راکھ کا منظر ہے روشنی کی صبُوح اندھیرا خوف کا پھوٹا ہے کس جہان سے یہ؟ کہ جس نے حَلق سے آواز تک چُرا لی ہے مگر یہ کون کہ معنیٰ اِسی سکوت سے لے کوئی غلام ہی ہو گا کہ چپ سمجھتا ہے صدا اُٹھائو کہ ہم سانس بھر تو جِی پائیں جو گروی رکھ دی ہے اک حبس کی تجوری میں عوض میں جس کے یہ کچھ بے وقار سانسیں لیں صدا کے کعبے کو مسمار اَبرہَہ نے کیا صدا بچانے ابابیل تک نہیں اُتری صدا اُٹھائو…

Read More

ظفر اقبال نادر ۔۔۔ الگ خُمار ہے اس کا سبھی خماروں سے

الگ خُمار ہے اس کا سبھی خماروں سے جنوں کلام کرے کیوں خِرد کے ماروں سے حصارِ ضبط میں رہنے دو آگہی کا نُور نِکل نہ جائے کہیں روشنی کناروں سے چمکنے دیتی نہیں منزلِ مُراد مِری عجیب دشمنی شب کو مرے ستاروں سے ٹھٹھرتی رات لرزتی ہے چاند اوڑھے ہوئے برہنگی نہیں ڈھپتی کنی سہاروں سے یہ کس خیال سے گرتی ہیں پلکیں آنکھوں پر کبھی تو جھانک مرے چاند ان چناروں سے ہمیشگی ترے عالم میں مل سکی نہ مجھے نکل سکا نہ کبھی خوف کے مداروں سے…

Read More