ظفر اقبال نادر ۔۔۔ الگ خُمار ہے اس کا سبھی خماروں سے

الگ خُمار ہے اس کا سبھی خماروں سے
جنوں کلام کرے کیوں خِرد کے ماروں سے

حصارِ ضبط میں رہنے دو آگہی کا نُور
نِکل نہ جائے کہیں روشنی کناروں سے

چمکنے دیتی نہیں منزلِ مُراد مِری
عجیب دشمنی شب کو مرے ستاروں سے

ٹھٹھرتی رات لرزتی ہے چاند اوڑھے ہوئے
برہنگی نہیں ڈھپتی کنی سہاروں سے

یہ کس خیال سے گرتی ہیں پلکیں آنکھوں پر
کبھی تو جھانک مرے چاند ان چناروں سے

ہمیشگی ترے عالم میں مل سکی نہ مجھے
نکل سکا نہ کبھی خوف کے مداروں سے

صفا کی اوٹ چھپایا دُرِ گناہ بدن
غِنا کی روشنی پھوٹی ہے کالے غاروں سے

جہانِ نُطق سے عُقدے نہیں کھلے میرے
خزاں کی بَاس ہی آئی ہے اِن بہاروں سے

ظفر چلو گُلِ اشکاں ہی اَب تبرّک لو
پلٹ رہے ہو اگر یاد کے مزاروں سے

Related posts

Leave a Comment