اشرف کمال ۔۔۔ درد کے ساتھ جو زندان میں رہتا ہوں میں

درد کے ساتھ جو زندان میں رہتا ہوں میں
کیا یہ کم ہے کہ ترے دھیان میں رہتا ہوں میں

کوئی روزن ہے کہیں بھی نہ ہوا ہے جس میں
ایسا لگتا ہے کسی کان میں رہتا ہوں میں

لوگ اب تیرے تعلق سے مجھے جانتے ہیں
اب ترے نام کی پہچان میں رہتا ہوں میں

ایک لمحے کو بھی مایوس نہیں ہوتا ہوں
اک ترے ملنے کے امکان میں رہتا ہوں میں

خواب میں سامنے رہتا ہے تمھارا چہرا
رات بھر ایک پرستان میں رہتا ہوں میں

تیرے خاکے تری یادیں ہی بہت ہیں مجھ کو
کون کہتا ہے کہ نقصان میں رہتا ہوں میں

گفتگو کرتا ہوں گاؤں میں درختوں سے کمال
شہر میں شور کے ہیجان میں رہتا ہوں میں

Related posts

Leave a Comment