محمود کیفی ۔۔۔ خواب تھا وہ عجِیب منظر کا

خواب تھا وہ عجِیب منظر کا
پُھول دیکھا تھا میں نے پتّھر کا

میں نے جانا تھا پار صحرا کے
راستہ تھا کٹھن سمندر کا

سانپ نے ڈس لِیا شِکاری کو
جب نِشانہ کِیا کبوتر کا

اِک مداری کی بُھوک تھی یارو!
وہ تماشا نہیں تھا بندر کا

دیکھا باہر تو تب یقیں آیا
خُوب موسم تھا آج اندر کا

بچے بچے کو فون چاہیے ہے
مسئلہ یہ ہے آج گھر گھر کا

نیند تو آ نہیں رہی کیفی !
فائِدہ اور کیا ہے بِستر کا ؟

Related posts

Leave a Comment