احمد محسود ۔۔۔ نڈر تھے ہم سو بے خوف و خطر آئے

نڈر تھے ہم سو بے خوف و خطر آئے
جنوں کی وادیوں سے بھی گزر آئے

تماشا بین پھر بھی خوش نہیں ہم سے
اگرچہ پابجولاں رقص کر آئے

خموشی ہے‘ سبھی پر خوف طاری ہے
غنیمت ہے کوئی آہٹ اگر آئے

اداسی کو بھی درکار ایک کاندھا تھا
محبت والے اس قابل نظر آئے

کہاں تحقیق کی زحمت گوارا کی
ہجومِ شہر میں محوِ سفر آئے

منڈیروں پر پرندے تک نہیں آتے
وراثت میں ہی ایسے بام و در آئے

مرے آنگن میں ہے اک پیڑ وحشت کا
اسی سال اس پہ ممکن ہے ثمر آئے

تباہی کے دہانے اب خیال آیا
کہاں کرنا پڑاؤ تھا کدھر آئے

جہاں صورت نہ تھی کوئی رسائی کی
وہاں کے خواب ہی بارِ دگر آئے

حمایت میں بہت آگے گئے احمد
پسندیدہ ہے‘ وہ جو کچھ بھی کر آئے

Related posts

Leave a Comment