جلیل عالی ۔۔۔ نئے بیانئے ارشاد کر دیے گئے ہیں

نئے بیانئے ارشاد کر دیے گئے ہیں
کچھ اور ولولے برباد کر دیے گئے ہیں

ہمیشہ ایک ہی تدبیر آزمائی گئی
وفا کے قافلے افراد کر دیے گئے ہیں

فرو ہوئی ہے بغاوت تو شہ کی جانب سے
اطاعتوں کے ثمر لاد کر دیے گئے ہیں

نصاب میں تھے جو عشق و جنوں کے افسانے
وہ حرص و آز کی روداد کر دیے گئے ہیں

اٹھا رہے تھے جو شہرِ صعود کی بنیاد
وہ سب نشانۂ افتاد کر دیے گئے ہیں

جو صاحبانِ سلوک و عطا تھے بستی میں
سپردِ موسمِ بیداد کر دیے گئے ہیں

عذاب اِس سے بڑا کیا زمیں پہ اترے گا
طیور قید ، سگ آزاد کر دیے گئے ہیں

ترے ستم کو دعا خسروِ فرومایہ
کہ کوہکن مرے فرہاد کر دیے گئے ہیں

ہمیں خوشی ہے کہ عالی لہو گلاب اپنے
برائے باغِ وفا کھاد کر دیے گئے ہیں

Related posts

Leave a Comment