افتخار شاہد ۔۔۔ جن کے صدمے اٹھائے بیٹھے ہیں

جن کے صدمے اٹھائے بیٹھے ہیں
ان کو دل میں بٹھائے بیٹھے ہیں

سرنگوں ہے غرور کا پرچم
آج سر کو جھکائے بیٹھے ہیں

آج رسماً ہی مسکرا دیجے
آج تو لوگ آئے بیٹھے ہیں

سرخ آنچل ہے، پیلے کنگن ہیں
اور مہندی لگائے بیٹھے ہیں

تیری چاہت کے ساحلوں سے پرے
ہم سمندر اٹھائے بیٹھے ہیں

اے فلک! ہم تری بلندی کو
اس زمیں سے ملائے بیٹھے ہیں

کوئی تاروں کو توڑ لایا ہے
کوئی سورج کو لائے بیٹھے ہیں

کون ہے محوِ آئنہ داری
آئنے چوٹ کھائے بیٹھے ہیں

اب کرم ہو خدائے شعر و سخن
جوت ہم بھی جگائے بیٹھے ہیں

وصل پیروں میں روند کر شاہد
ہجر سر پر اٹھائے بیٹھے ہیں

Related posts

Leave a Comment