مزمل رضا سارب ۔۔۔ بطاہر تو تیرا وفادار ہوں میں

بطاہر تو تیرا وفادار ہوں میں
مگر زندگی تجھ سے بیزار ہوں میں

میسر نہیں ہے کوئی راہِ رخصت
یہ کیسے قفس میں گرفتار ہوں میں

ترا چھوڑ جانا ضروری تھا مجھ کو
مری جان! وحشت کا بازار ہوں میں

قبیلے کے رستے پہ مردہ پڑا ہے
وہ جو کہہ رہا تھا کہ سردار ہوں میں

عدالت میں لے آئے کچھ دوست مجھ کو
سمجھتے ہیں ان کا طرفدار ہوں میں

میسر نہ ہو جس سے سایہ کسی کو
کڑی دھوپ میں ایسی دیوار ہوں میں

کہیں سن کے سارب وہ مر ہی نہ جائے
اسے مت بتاؤ کہ بیمار ہوں میں

Related posts

Leave a Comment